سعودی عرب نے پیر کے روز مکہ مکرمہ میں درجہ حرارت میں اضافے کے بارے میں خبردار کیا ہے کیونکہ مسلمان عازمین حج سخت موسم میں حج کی ادائیگی کر رہے ہیں اور گرمی کی وجہ سے 12 سے زائد اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔

سعودی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک اس سال ایک بار پھر موسم گرما کے دوران ہوا اور حکام نے صرف اتوار کو ’گرمی سے تھکن‘ کے 2700 سے زائد واقعات ریکارڈ کیے۔

سعودی محکمہ موسمیات کے مطابق پیر کے روز مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ (125 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا جہاں حجاج خانہ کعبہ کے گرد چکر لگا رہے تھے۔

منیٰ کے قریب، جہاں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، دیگر عازمین شیطان کو کنکریاں مار رہے تھے - ، جو حج کا آخری بڑا رکن ہے۔

اردن کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اردن کے 14 زائرین شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ 17 دیگر لاپتہ ہیں۔

ایران نے پانچ زائرین کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے لیکن اس کی وجہ نہیں بتائی ہے جبکہ سینیگال کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ تین دیگر افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

سعودی عرب میں موجود انڈونیشیا کی وزارت صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حج کے دوران 136 انڈونیشی عازمین جاں بحق ہوئے جن میں سے کم از کم تین ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔

ریاست سے منسلک وزارت صحت نے کہا کہ ”مقدس مقامات پر آج حج کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے… جو کہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے، اور ہم خدا کے مہمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سورج کی روشنی میں نہ آئیں،“

سعودی وزارت صحت نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اتوار کے روز سورج کی روشنی اور ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گرمی سے تھکن کے 2,764 کیسز سامنے آئے ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”روک تھام سب سے اہم ہے، اور زائرین شدید گرمی کے اوقات میں باہر نہ نکلیں، سوائے اس کے کہ جب ضروری ہو، یا چھتری کا استعمال کریں۔“

”آنے والے دنوں کے لیے ہماری صحت کے رہنما خطوط واضح اور آسان ہیں: چھتری لے کر چلیں، باقاعدگی سے پانی پئیں، اور دھوپ سے بچیں۔“

’واقعی مشکل دن‘

گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک سعودی تحقیق کے مطابق حج موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے متاثر ہو رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ علاقائی درجہ حرارت ہر دہائی میں 0.4 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے۔

پیر کے روز منیٰ میں حجاج کرام نے اپنے سروں پر پانی کی بوتلیں ڈالیں جبکہ حکام نے کولڈ ڈرنکس اور ٹھنڈی چاکلیٹ آئس کریم تقسیم کیں۔

مصر سے تعلق رکھنے والی 61 سالہ عزا حامد ابراہیم نے بتایا کہ جب وہ شیطان جو کنکریاں مار رہی تھیں تو سڑک کے کنارے بے حرکت لاشیں دیکھ رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایمبولینسوں کو نہیں معلوم تھا کہ کس طرف مڑنا ہے۔ یہ قیامت کے دن کی طرح لگ رہا تھا۔

“یہ واقعی ایک مشکل دن تھا. ہم نے اپنے آپ سے کہا: ’ ہم ہیٹ ویو کی وجہ سے مرنے جا رہے ہیں۔’

پاکستان سے تعلق رکھنے والی آرزو فرحاج نے بتایا کہ وہ سڑک کے کنارے لیٹی ہوئی ایک خاتون کے لیے مدد تلاش کرنے کے لیے کوشش کر رہی تھیں۔

فرحاج نے بتایا کہ خاتون بظاہر اپنے کسی ساتھی کے بغیر نظر آ رہی تھی اور لوگ وہاں سے گزر رہے تھے اور وہ اپنے لیے ایمبولینس بلانے سے قاصر تھیں۔

سعودی حکام کے مطابق اس سال تقریبا 1.8 ملین عازمین حج نے شرکت کی جن میں سے 1.6 ملین بیرون ملک سے آئے۔

Comments

200 حروف