کاروبار اور معیشت

اقتصادی سروے 2023-24 : اسٹریٹیجک ریاستی ملکیتی ادارے کا کوئی تصور نہیں ، وزیر خزانہ

  • زرعی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود پاکستان بیشتر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا
شائع June 11, 2024 اپ ڈیٹ June 12, 2024

وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے واضح طور پر کہا کہ جب ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کی بات آتی ہے تو“ کوئی مقدس گائے“ نہیں ہوتی، یہ ریمارکس انہوں نے منگل کی شام اقتصادی سروے 2023-24 پیش کرتے ہوئے دیے۔

سروے کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان گزشتہ مالی سال کے دوران 3.5 فیصد شرح نمو کے ہدف سے محروم رہا اور 2.4 فیصد حاصل کرسکا تاہم وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔

زرعی شعبے نے گزشتہ 19 سال میں سب سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جو غذائی تحفظ ، قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کی سمت اہم کامیابی ہے- اقتصادی سروے 2023-24

زرعی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود پاکستان اپنے بیشتر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ، صنعتوں اور خدمات کے شعبے میں 1.2 فیصد کی سست شرح نمو ریکارڈ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 22-23 میں ہماری جی ڈی پی 0.2 فیصد تھی جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی واقع ہوئی اور ہمارے زرمبادلہ ذخائر دو ہفتوں کی درآمدات کیلئے رہ گئے تھے ۔

سابق بینکر نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ پاکستان میں اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی ادارہ ہے۔

انہوں نے وزیر مملکت علی پرویز اور سیکرٹری خزانہ و منصوبہ بندی کے ہمراہ کہا کہ میں یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ اسٹریٹجک ایس او ای جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔  .

اسٹریٹجک ایس او ایز کے بارے میں ان کا موقف بظاہر ان رپورٹس سے متصادم ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت حکومت کے تمام اداروں کی نجکاری کرنے پر غور کر رہی ہے، سوائے ان اداروں کے جہاں برقرار رکھنے کی اسٹریٹجک ضرورت ہے۔

اسٹریٹجک ایس او ایز کے بارے میں ان کا موقف بظاہر ان رپورٹس سے متصادم ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تمام اداروں کی نجکاری کرنے پر غور کر رہی ہے ۔

تاہم محمد اورنگ زیب نے کہا کہ ایس او ای کی اب بھی اسٹریٹجک ضروریات ہوسکتی ہیں لیکن یہ اسٹریٹجک ادارہ نہیں ہوسکتا ہے۔

یہ حوالہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان ایک نجکاری پروگرام پر عمل پیرا ہے جس کی وکالت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی کی ہے۔

آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیرخزانہ نے کہا کہ اپریل میں مکمل ہونے والے پاکستان کے اسٹینڈ بائی معاہدے (ایس بی اے) سے معیشت کوکافی مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نجی شعبے میں تھا تب بھی میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک پروگرام میں شامل ہونا چاہئے ۔ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر نو ماہ کا ایس بی اے حاصل نہ کیا جاتا تو ہم بہت مختلف صورتحال میں ہوتے۔

نئے پروگرام کے بارے میں میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے کافی پیش رفت کی ہے۔

پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ ایک طویل اور بڑے پروگرام کے لئے بات چیت میں مصروف ہے۔

دریں اثنا وزیر خزانہ نے کہا کہ بلند شرح سود اور توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) متاثر ہوئی ۔ تاہم زراعت کے شعبے کی بدولت ہمیں کافی حد تک مدد ملی اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے یہ ترقی کا ایک بہت بڑا لیور رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023-24 کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس محصولات کی وصولی میں غیر معمولی طور پرتقریبا 30 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

وزیر خزانہ نے مئی میں کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس میں رہنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی کرنسی مستحکم ہوئی ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر سے زائد ہوگئے۔ مرکزی بینک کو مکمل کریڈٹ جاتا ہے ۔ ہمارے ذخائر کو قرضوں کے ذخائر سے فنڈ نہیں کیا جاتا ہے۔

افراط زر کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر مرکزی بینک نے پالیسی ریٹ میں کمی کی ہے۔

سابق بینکر محمد اورنگ زیب نے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں غیر ملکی خریداری بھی اعتماد کی علامت ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی اعتماد کی آزاد مارکیٹ ہے۔ (لیکن) ہمیں اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

’جب ٹیکس لگانے کی بات آتی ہے تو کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کی بجٹ تجاویز پیش کرنے سے ایک روز قبل انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

Comments

200 حروف