بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی حکومت میں کابینہ کے تمام اہم وزرا کو ان کے قلمدانوں میں برقرار رکھا ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کے لیے اتحادیوں پر انحصار کرنے کے باوجود وہ اب بھی حکومت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) رواں ماہ ختم ہونے والے انتخابات میں اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، لیکن حکومت نے اعلان کیا کہ چار سینئر ترین وزارتوں – خزانہ، داخلہ، دفاع اور خارجہ امور میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ پارٹی نے تجارت اور زراعت جیسی دیگر اہم وزارتوں کو بھی اپنے پاس رکھا ہے۔

مودی کے مسلسل تیسری مدت کے لیے اقتدار سنبھالنے سے قبل اتحادیوں کی جانب سے اہم قلمدانوں کے حصول کی باتیں زیر گردش تھیں ۔

نئی دہلی میں قائم سوسائٹی فار پالیسی اسٹڈیز تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ترون باسو نے کہا، ’وہ اپنے اتحادیوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں تاکہ تسلسل کا مظاہرہ کرنے کے لئے تمام اہم قلمدان برقرار رکھے جا سکیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

”اس پیش گوئی کے باوجود، اتحاد کے اندر لازمی طور پر اندرونی کشمکش اور دباؤ ہوگا، اگرچہ یہ اتنی جلدی عوام کے سامنے نہیں آسکتا ہے .“

انتخابات میں بی جے پی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی 543 نشستوں میں سے 240 پر کامیابی حاصل کی۔ اس اتحاد نے کل 293 نشستیں حاصل کیں اور 272 نشستوں کی اکثریت کا ہندسہ عبور کیا۔

فلپ کیپیٹل کی تجزیہ کار انجلی ورما نے ایک نوٹ میں اتحادیوں کو دیے گئے 30 میں سے پانچ کابینہ عہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ’ہمارا ماننا ہے کہ نشستوں کی تقسیم اتحادیوں کے ساتھ بہترین اور منصفانہ سلوک کا مظاہرہ کرتی ہے، جو ایک بڑا پلس ہے۔

ہندو قوم پرست بی جے پی کے علاوہ حکمراں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی دو اہم جماعتیں اپنی ریاستوں، جنوب میں آندھرا پردیش اور مشرق میں بہار کے لیے فنڈز حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔

آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی اور بہار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ بی جے پی نے کہا کہ وہ اپنے شراکت داروں اور ان کی امنگوں کا احترام کرتی ہے ، لیکن یہ بھی کہا کہ اتحادیوں نے مودی کو کھلی چھوٹ دی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان سید ظفر اسلام نے کہا، ’یہ انتخابات سے پہلے کا اتحاد ہے اور اگلے پانچ سالوں کے منصوبے پر سبھی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیر مشروط حمایت ہے اور توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے کہ معیشت میں تیزی آئے اور تسلسل اہم ہے۔ ان کی حمایت کے لئے کوئی شرط نہیں ہے - وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ معیشت میں تیزی آئے، تاکہ بہت ساری ملازمتیں پیدا ہوں۔

اتحادی پارٹیوں کے رہنما، تلگو دیشم کے چندرا بابو نائیڈو اور جنتا دل کے نتیش کمار، تجربہ کار سیاست دان ہیں، جن کے خیالات بی جے پی اور اس کے طاقت ور ہندو ازم کے ایجنڈے سے متصادم ہوسکتے ہیں۔

سوسائٹی فار پالیسی اسٹڈیز کے باسو نے کہا، ’مودی کو کچھ نظریاتی مسائل پر اپنے موقف کو اعتدال پسند بنانے کی ضرورت ہوگی جو ان کے اتحادیوں کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں، جو ماضی میں مخلوط سیاست کرتے رہے ہیں۔

Comments

200 حروف