خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کے ایک سروے کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) آئندہ ہفتے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی کمی کر سکتا ہے۔

مرکزی بینک کا اجلاس پیر (10 جون) کو ہوگا جس سے ایک ہفتہ قبل پاکستان نے مئی میں 30 ماہ میں سب سے کم کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 11.8 فیصد ریکارڈ کیا تھا جو اندازوں سے بہت کم ہے۔

یہ فیصلہ پاکستان کے سالانہ بجٹ سے پہلے کیا جائیگا۔

روئٹرز کے 16 تجزیہ کاروں کے ایک سروے میں اوسط تخمینے کے مطابق اسٹیٹ بینک شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی کمی کرے گا۔

دس تجزیہ کار 100 بی پی ایس کٹوتی کی پیش گوئی کر رہے ہیں، ایک تجزیہ کار 150 بی پی ایس کٹوتی کی توقع کر رہا ہے، جبکہ چار کو 200 بی پی ایس کٹوتی کی توقع ہے.

ایک جواب دہندہ کو توقع ہے کہ بینک ایک بار پھر شرح سود برقرار رکھے گا۔

پاکستان میں گزشتہ دو سال سے معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں کیونکہ حکومت نے گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت سخت اصلاحات نافذ کی ہیں۔

جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ 2 فیصد رہنے کی توقع ہے جو گزشتہ سال منفی تھی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس سال 3.5 فیصد شرح نمو کا ہدف رکھے گی کیونکہ اسے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی توقع ہے۔

حکومت رواں سال کے اوائل میں قلیل مدتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد رواں موسم گرما میں نئے طویل مدتی بیل آؤٹ کے لیے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی جس سے اسکو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی ہے۔

اس سے قبل آئی ایم ایف نے افراط زر پر قابو پانے کے لئے سخت مانیٹری پالیسی جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا ، افراط زر مئی 2022 سے 20 فیصد سے اوپر رہا ہے اور پچھلے سال 38 فیصد کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

اس کے بعد سے افراط زر کی شرح میں کمی آئی ہے اور اپریل میں یہ 20 فیصد اور مئی میں 11.8 فیصد سے نیچے آ گئی ہے۔

اقتصادی تجزیہ کار عزیر یونس نے کہا کہ افراط زر میں مسلسل کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں قبل از وقت کمی نہ کر کے دانشمندی کا مظاہرہ کیا، اب اس کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو خطرے میں ڈالے بغیر کٹوتی کرنے کی گنجائش ہے۔

تاہم کے ٹریڈ کے ہیڈ آف ریسرچ فواد بصیر کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ٹیکس اصلاحات پر غور کیا جا رہا ہے جس کے نہ صرف افراط زر بلکہ معیشت پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ایک بار جب اس طرح کے فیصلوں کے اثرات ہائی فریکوئنسی ڈیٹا میں واضح ہوجائیں گے اور اس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہوں گے تو اسٹیٹ بینک ممکنہ طور پر امریکی فیڈ کی حکمت عملی سے ہم آہنگ موقف کے لیے اچھی پوزیشن میں ہو گا۔

Comments

200 حروف