شہباز شریف نے بدھ 8 مئی 2024 کو پورے پاکستان میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا اعلان کیا۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے جس میں یونیسیف کا کہناہے کہ پاکستان میں اسکولوں سے محروم بچوں کی تعداد 26 اعشاریہ 2 ملین ہے جن کی عمریں 5 سے 16سال کے درمیان ہے۔ یونیسیف کے مطابق اتنی بڑی تعداد کے ساتھ پاکستان بھی ایسے ممالک میں سے ایک ہے جہاں بچوں کی کثیر تعداد اسکولوں سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ملک میں بنیادی تعلیم کی صورتحال پر اجلاس بلائیں گے۔ آئین لاگو کیے جانے سے متعلق خدمات کی طرح تعلیم کی فراہمی سے متعلق خدمات کی فراہمی صوبائی حکومتوں کا دائرہ کار ہے۔ مثالی طور پر وزیر اعظم کو تعلیمی ایمرجنسی پر مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس طلب کرنا چاہیئے تھا۔
اس مضمون کا مقصد پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد اور اس کی بنیادی وجوہات کے رحجانات کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ معلومات ملک میں ادارہ شماریات کے ذریعے وقتاً فوقتاً کئے جانے والے سماجی اور زندگی کے معیار کی پیمائش کے سروے سے حاصل کی گئی ہیں۔ اس طرح کا آخری سروے 20-2019 میں کیا گیا تھا اور نتائج جون 2021 میں جاری کیے گئے تھے۔ معلومات ضلعی سطح تک جمع کی گئی ہیں جس کا سیمپلز سائز 5300 بلاکس اور 80 ہزار سے زائد گھرانوں پر مشتمل تھا۔
پہلا جدول ملک میں 2013-14 سے 2019-20 تک صنفی اعتبار سے اسکول نہ جانے والے بچوں کے فیصد میں رجحان کو نمایاں کرتا ہے۔
متوقع طور پر اسکول نہ جانے والے لڑکوں کی تعداد یا فیصد لڑکیوں کی تعداد سے نمایاں طور پر کم ہے۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق 27 فیصد لڑکے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ بچیوں کے معاملے میں یہ شرح 37 فیصد ہے۔
مندرجہ بالا جدول ملک میں اسکول سے باہر بچوں کی شرح کو کم کرنے میں پیش رفت کی انتہائی سست رفتار کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ یہ 2013سے 14 تک 33 فیصد تھی اور 6 سالوں میں صرف 32 فیصد ہوئی یعنی صرف ایک فیصد کی معمولی کمی آئی ہے۔ درحقیقت اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جبکہ بچیوں کی شرح 40 فیصد سے کم ہو کر 37 فیصد رہ گئی ہے۔
اگلا جدول نمبر دو 2019 سے 20 تک صوبے میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد نمایاں کرتا ہے۔
جدول-2 واضح طور پر صوبوں کے درمیان اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بڑے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پنجاب میں 24 فیصد کے ساتھ سب سے کم ہے، اس کے بعد خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب 32 فیصد، 44 فیصد اور 47 فیصد ہے۔
ملک میں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان فرق 2019 سے 20 کے لیے جدول 3 میں دکھایا گیا ہے۔
شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ مؤخر الذکر کے اسکولوں میں اکثر غیر حاضر اساتذہ اور بنیادی سہولیات کی کمی خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ہوتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سندھ میں شہری آبادی کی بلند ترین شرح کے باوجود اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اس سے صوبائی حکومت کی طرف سے تعلیم کے لیے فنڈز مختص کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ معلومات وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے تیار کردہ پی آر ایس پی پروگریس رپورٹس سے حاصل کی گئی ہیں۔ اس طرح کی تازہ ترین رپورٹ 2021-22 کی ہے اور اس کا خلاصہ جدول 4 میں پیش کیا گیا ہے۔
کسی صوبے کی مجموعی علاقائی پیداوار کے فیصد کے طور پر تعلیمی اخراجات کی سطح کا بھی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ شرح 4 فیصد خیبرپختونخوا کی ہے۔ اس کے بعد بلوچستان میں جی آر پی کا 2.5 فیصد، پنجاب میں جی آر پی کا 1.2 فیصد اور سندھ میں جی آر پی کا 1.1 فیصد ہے۔ پورے ملک کے لیے، بشمول وفاقی اخراجات، تعلیمی اخراجات جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر 2021-22 میں جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد تھا۔ مثال کے طور پر یہ بھارت میں جی ڈی پی کے 4 فیصد کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔
جدول 4 ترقیاتی اخراجات میں بہت کم حصہ کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ نتیجتاً ملک میں اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی سالانہ شرح صرف 2,400 ہے۔ یہ 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 2 ملین بچوں کی تعداد میں سالانہ اضافے کو پورا کرنے کے لیے شاید ہی کافی ہے۔
تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اب ملک میں تعلیم کی تیزی سے توسیع کے لیے بڑے فیصلوں کا سبب بننا چاہیے۔ پلاننگ کمیشن اور صوبائی پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹس کو ایک پانچ سالہ منصوبہ بنانا چاہیے جس کا ہدف 2029 تک اسکول نہ جانے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد کو فی الحال تقریباً ایک تہائی سے کم کرکے ایک چوتھائی تک لانا ہے۔
فوری اہمیت کا مسئلہ صوبوں کی جانب سے تعلیمی اخراجات کی سطح کو بڑھانا ہے جو کہ جی ڈی پی کا بمشکل 1.6 فیصد ہے۔ بھارت کی جانب سے انکم ٹیکس پر تعلیمی لیوی لگانے کی پالیسی کو آئندہ وفاقی بجٹ میں زیر غور لایا جاسکتا ہے۔
یہ لیوی کل قابل ٹیکس رقم کا 3 فیصد ہے۔ اس نے بھارت میں عوامی تعلیم کے اخراجات کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھانے میں مدد کی ہے۔ تعلیمی لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ اشتراک کے لیے مکمل طور پر قابل تقسیم پول میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد سخت کارروائی کا عندیہ ملے گا۔
Comments