پاکستان

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانا، سرکاری اداروں کی نجکاری ترجیحات ، وزیرخزانہ

  • نجی شعبے کو مشکل وقت میں معیشت کی قیادت ، رہنمائی کیلئے آگے آنا چاہیے ، محمد اورنگزیب
شائع May 13, 2024

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانا، سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی تیزی سے نجکاری اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام گزشتہ چند ماہ میں دیکھا گیا ہے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ نجی شعبے کو مشکل وقت میں معیشت کی قیادت اور رہنمائی کے لیے آگے آنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہارانہوں نے مقامی ہوٹل میں پری بجٹ کانفرنس 2024-25 سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام وفاقی چیمبر اور بزنس ریکارڈر نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کا کردار پالیسیاں فراہم کرنا ہے جب کہ نجی شعبے کو حقیقی معنوں میں پیداواری صلاحیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ہم صوبوں سے مشاورت کے بعد آگے بڑھیں گے۔ ہم ملک میں ترقی چاہتے ہیں۔ ہمیں بنیادی مساوات کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غیر دستاویزی معیشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کا تنخواہ دار طبقہ ٹیکس نیٹ کا حصہ ہے اور اسی طرح تاجر برادری کو بھی اس کا حصہ بنانا ہوگا۔اب سے ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔ میں یہ واضح کر دوں کہ ہمیں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے۔ یہ پاکستان کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا، جو اس وقت تقریباً 9 فیصد ہے، جو کہ دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم عمل درآمد میں ناکامی اور میکانزم کی کمی کی وجہ سے زبردست ناکامی کا شکار ہے۔ ہمیں لیکیج کو روکنا تھا اور بغیر ٹیکس والے حصوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جب وہ نجی شعبے میں تھے اور بزنس کونسل کے سربراہ تھے تو 10 ٹریلین روپے نقدی گردش میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم غیر دستاویزی معیشت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میں نے کہا تھا کہ ’نقدی پر جنگ‘ ہے، اگر ہم معیشت کو دستاویزی شکل دیں تو ملک کی معیشت کا حجم بہت بڑا ہے۔

تاجروں کی رجسٹریشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کے لیے اپریل رضاکارانہ تھا لیکن اب انہیں رکاوٹوں کو دور کرکے اور اعتماد کی کمی پر قابو پاکر آگے بڑھنا ہوگا۔

ٹیکس نظام کی ڈیجیٹلائزیشن کو ٹیکس وصولی کو جدید بنانے، شفافیت کو بڑھانے اور محصولات میں اضافے کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے وزیر نے کہا کہ ٹیکس نظام کو ڈیجیٹل کرنے کے لیے عالمی مشاورتی فرم میک کینسی اینڈ کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے۔“ڈیجیٹل تبدیلی حکومت کے لیے ایک اہم ترجیح ہے، اور یہ تعاون پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے عزم کو واضح کرتا ہے۔

ٹیکس نظام کی ڈیجیٹلائزیشن کو ٹیکس کلیکشن کو جدید بنانے، شفافیت بڑھانے اور محصولات میں اضافے کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے عالمی مشاورتی فرم میک کنزی اینڈ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی حکومت کی اہم ترجیح ہے اور یہ تعاون پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے،ہم ملکی معیشت پر اس اقدام کے مثبت اثرات دیکھنے کے منتظر ہیں۔

قبل ازیں کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ حکومت کا کام ایسی پالیسیاں بنانا ہے جن پر بنیادی طور پر نجی شعبے کو عمل درآمد کرنا ہو گا۔ معاشی صورتحال کو مشکل وقت سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے نجکاری کرنا ہو گی۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر 9 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں اور حکومت کی موثر اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی ہے اور دونوں فریقین پیر (آج) کو قرض کے نئے پروگرام کے لیے بات چیت شروع کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم اور بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ایک بڑے اور طویل پروگرام پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ڈائیلاگ نئے معاہدے کے سائز اور دائرہ کار کا تعین کرے گا۔ تاہم اس سے قبل یہ اطلاع دی گئی تھی کہ حکومت 6 بلین اور 8 بلین ڈالر کا تین سے چار سالہ بیل آؤٹ پیکج چاہتی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اس وقت 24ویں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے درخواست دے رہا ہے اور اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف نہ کی گئیں تو اسے 25ویں کی بھی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کی سہولت کے لیے ملکی شرح مبادلہ کو کم کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے پورٹ فولیو سرمایہ کاری کی وجہ سے کرنسی مستحکم ہے اور اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے جو کہ ایک اچھی علامت ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعتیں 25 سے 26 فیصد شرح سود پر کام نہیں کرسکتیں۔

انہوں نے متعدد موضوعات کا احاطہ کیا، بشمول روپے کی شرح تبادلہ اور شرح سود، جن کا تعین اسٹیٹ بینک کرتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مسابقتی توانائی ہی حل ہے اور وہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بجلی چوری کی جانچ کرنی تھی۔انہوں نے کہا کہ ڈسکوز بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو وزیر پاور کر رہے ہیں اور اس میں نجی شعبے کے لوگ شامل ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نجکاری کے ایجنڈے کو تیز کریں گے۔ مقامی سرمایہ کار پی آئی اے اور اسلام آباد ائرپورٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں۔

انہوں نے خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے اور انہیں سہولت فراہم کرنے کی بھی وکالت کی۔

انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے ذریعے کئے گئے سرمایہ کاری کے اقدامات کی وجہ سے سعودی عرب، چین اور یورپی یونین سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی ) آرہی ہے۔

کاروباری رہنماؤں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر نے کہا کہ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ہمارے کنٹرول میں ہیں اور ہمیں دونوں شعبوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ایس ایم ایز کے مسائل کے بارے میں ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ چھوٹے تاجروں کے چیمبرز سے مشاورت کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی بینکوں کے سی ای اوز سے ایس ایم ایز، آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں میں فنانسنگ بڑھانے کے لیے کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ انہیں اعتماد کی کمی پر قابو پا کر اور متوازن طرز عمل متعارف کراتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف