جنگ بندی:حماس نے قطر اور مصر کی تجویز قبول کرلی
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ثالثی کرنے والے قطر اور مصر کے حکام کو پیر کے روز بتایا ہے کہ ان کی تنظیم نے تقریبا سات ماہ کی اسرائیلی جارحیت کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی ان کی تجویز قبول کر لی ہے۔
حماس کی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے اسماعیل ہنیہ نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصری انٹیلی جنس کے وزیر عباس کامل سے فون پر بات کی اور انہیں جنگ بندی معاہدے کی تجویز کی منظوری سے آگاہ کیا۔
تاہم حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے واضح کیا ہے کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنگ بندی نافذ العمل ہو گئی ہے‘۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس حوالے سے ’اسرائیل نے ابھی تک اپنے موقف سے آگاہ نہیں کیا ہے‘۔
ایک اور سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں ہے، چاہے تو وہ جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہو جائے یا اس میں رکاوٹ ڈالے۔‘
حماس کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے پیر کے روز فلسطینیوں سے کہا تھا کہ وہ جنوبی غزہ شہر پر زمینی حملے سے قبل مشرقی رفح سے نکل جائیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگار نے خبر دی ہے کہ رفح میں جہاں شہری اسرائیل کی جانب سے انخلاء کے حکم پر خوف اور الجھن میں مبتلا ہوگئے تھے، حماس کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز قبول کرنے کے اعلان کے بعد لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا اور سڑکوں پر ہوائی فائرنگ کی۔
نامہ نگار نے بتایا کہ لوگ خوشی سے رو رہے تھے، ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور اس خبر کا جشن منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔
کئی ماہ کی شٹل ڈپلومیسی کے باوجود ثالث ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس نوعیت کی جنگ بندی میں ناکام رہے ہیں جیسی گزشتہ سال نومبر میں کی گئی تھی اور جس میں 105 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا، جس میں اسرائیل میں قید فلسطینیوں کے بدلے رہا ہونے والے اسرائیلی بھی شامل تھے۔
اس سے قبل حماس کی جانب سے دیرپا جنگ بندی کے مطالبے اور اسرائیلی وزیراعطم نیتن یاہو کی جانب سے رفح میں حماس کے باقی ارکان کو کچلنے کے لیے کی جانے والی جارحیت کی وجہ سے مذاکرات کی کوششیں تعطل کا شکار ہو گئی تھیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 34 ہزار 735 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
Comments
Comments are closed.