امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ کیخلاف طلبا کے کئی ہفتوں سے جاری احتجاج میں ہنگاموں، پولیس سے جھڑپوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے واقعات سامنے آنے کے بعد جمعرات کو کہاہے کہ کالج کے کیمپسز میں قانونی احکامات پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔
امریکی صدر نے طلبا کی جانب سے احتجاج شروع ہونے کے بعد خاموشی اختیار کر رکھی تھی تاہم ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سیکڑوں پولیس اہلکاروں کی جانب سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں رکاؤٹیں ہٹائی گئیں اور ایک بڑے کیمپ کو زبردستی خالی کرانے کے دوران 200 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا۔
نیویارک سے کیلیفورنیا کے کالج اور یونیورسٹیز کے کیمپسز کی انتظامیہ کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے دوران مظاہروں میں نفرت انگیز تقاریر اور پر تشدد واقعات کی روک تھام کے مطالبات کررہے تھے جس کے نتیجے میں یونیورسٹیز کے سیمسٹر ختم ہوتے ہی 2 ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئیں۔
اس ضمن میں بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے جاری ایک ٹی وی بیان میں کہا کہ ہم کوئی آمرانہ قوم نہیں جو لوگوں کو خاموش کرادیتے ہیں یا اختلاف رائے ختم کردیتے ہیں۔ بائیڈن کو ان مظاہروں پر سیاسی حریفوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسا ملک بھی نہیں جہاں لاقانونیت ہو، ہم ایک سول سو سائٹی ہیں جہاں نظم و ضبط برقرا رہنا چاہیئے۔ ان کے بیان سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس کے باہر ہیلمٹ پہنے طلبہ نے صف بندی کرکے مظاہرین کو گرفتار کرکے لے جانے والے پولیس اہلکاروں کو بھی روکنے کی کوشش کی۔
یونیورسٹی کے چانسلر جین بلاک نے کہا کہ تقریباً 300 مظاہرین رضاکارانہ طور پر وہاں سے چلے گئے جبکہ منتشر ہونے کے احکامات نہ ماننے والے 200 سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس نے کیمپس کے باہر جمع ہونے والے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے فلیش گرنیڈ کا استعمال بھی کیا جبکہ اس موقع پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے رہے۔
پولیس افسران نے کیمپس تک جانے والی سیڑھیوں کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اس موقع پر طبی عملے کی خدمات سر انجام دینے کیلئے طلبہ نے پیلی جیکٹیں بھی پہن رکھی تھیں جنہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں پولیس نے جانے نہیں دیا۔
کیمپ کے ایک اور حصے میں چھتریاں، ہیلمٹ اور پلاسٹک کی شیلڈز اٹھائے طلبہ فلسطین کے حق میں آزادی کے نعرے لگاکر پولیس کیخلاف مزاحمت کرتے رہے۔
پولیس کی جانب سے نفری میں اضافہ، جس میں لاس ایجنلس پولیس کے افسران اور کلیفورنیا ہائے پٹرولنگ کے افسران بھی شامل تھے، اس وقت کیا گیا جب اسرائیل کے حامی مظاہرین نے طلبہ کے کیمپ پر حملہ کیا اور پرتشدد کارروائی کو روکنے میں پولیس پر ناکامی کے الزامات لگائے گئے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ کیمپس میں ہنگامی صورتحال کے سبب جمعرات اور جمعے کو کلاسز نہیں ہوں گے جبکہ طلبہ بھی احتجاج کے مقام سے دور رہیں۔
بے چینی کی لہر
گزشتہ ماہ سے کم از کم 40 امریکی یونیورسٹیز کے کیمپس میں مظاہرین جمع ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے بڑھتی ہوئی اموات کیخلاف احتجاجی کیمپ بھی لگا رکھے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ نیو یارک کی فورڈھم یونیورسٹی میں افسران نے کئی لوگوں کو حراست میں لے لیا اور ایک اسکول کی عمارت کے اندر احتجاج کو ختم کر دیا۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں مظاہرین نے بدھ کی سہ پہر کے ٹریفک کے رش کے اوقات میں کیمپس کے مرکز کے قریب ایک مقام کو بند کردیا۔
ڈلاس میں یونیورسٹی آف ٹیکساس میں بھی دیکھنے میں آیا کہ پولیس نے ایک کیمپ ختم کرتے ہوئے کم از کم 17 افراد کو ”مجرمانہ خلاف ورزی“ کے الزام میں گرفتار کیا۔ پولیس نے کہا کہ اس ہفتے کولمبیا اور نیویارک کی ایک اور یونیورسٹی میں تقریباً 300 گرفتاریاں کی گئیں۔
میئر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ منگل کی رات دو اسکولوں سے گرفتار کیے گئے تقریباً نصف افراد ایسے تھے جن کا اسکولوں سے تعلق نہیں۔
بیلنس ایکٹ
یونیورسٹی کے رہنماؤں کی طرح بائیڈن انتظامیہ نے بھی آزادانہ تقریر اور دھمکیوں کی شکایات میں فرق ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ریپبلکنز نے بائیڈن پر الزام لگایا ہے کہ وہ مظاہرین میں یہود مخالف جذبات سے متعلق نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جب کہ انہیں غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی بھرپور حمایت کرنے پر اپنی ہی پارٹی میں بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا ہے۔
بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ کسی کیمپس میں یہود دشمنی یا یہودی طلباء کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
Comments
Comments are closed.