اداریہ

زر مبادلہ ذخائر میں اضافہ

  • زرمبادلہ کے ذخائر 9 سے 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے، وزیر خزانہ
شائع April 29, 2024

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ”Leaders in Islamabad Business Summit 2024 collaborating for Growth“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں خطاب کے بعد پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 9 سے 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے، یہ ذخائر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 12 اپریل 2024 کو رکھے گئے 8054.7 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 1.1 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی آخری قسط کی آمد پر بڑھ جائینگے ۔ اگرچہ یہ رقم 20 جنوری 2023 کو دستیاب 3678.4 ملین ڈالر میں بہت بڑی بہتری ہے لیکن دو باتیں اہم ہیں۔

سب سے پہلے، ذخائر کا بڑا حصہ دوست ممالک کی طرف سے 7 ارب ڈالر کے ڈپازٹ میں ایک سال کے لیے توسیع کے ذریعے حاصل ہوا ہے ، سعودی عرب کی جانب سے 3 ارب ڈالر کا قرض یکم دسمبر 2024 تک رول اوور ہو گیا، متحدہ عرب امارات نے جنوری 2024 میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ رقم جمع کرنے پر اتفاق کیا اور چین کے 2 ارب ڈالر فروری 2024 میں آئے۔

یہ توسیعات حکومت کے لیے اہم تھیں کہ وہ آئی ایم ایف مشن کو پاکستان کے ساتھ دوبارہ کام کرنے پر راضی کرے تاکہ توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے اس وقت کے زیر التواء نویں جائزے کے ساتھ ساتھ روپے اور ڈالر کی برابری کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی پالیسی کو ترک کر دیا جائے۔ اس وقت کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کی وجہ روپے کی قدر پر قابو پانا تھا ۔ گزشتہ مالی سال ان دوست ممالک کے ڈپازٹس کی معیشت پر لاگت سود کی مد میں 26.6 ارب روپے تھی۔

چاہے جو بھی ہو، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مارچ 2024 سے نومبر 2024 تک زرمبادلہ کی ضرورت 19.71 ارب ڈالر ہے ، ایک ایسی رقم جس کا زرمبادلہ کی آمد کے دو مطلوبہ ذرائع تجارتی سرپلس اور ترسیلات زر کی آمد سے پورا نہ ہونے کا امکان ہے۔

جولائی تا مارچ 2024 کا تجارتی خسارہ کم ہو کر 17.030 ارب ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال 22.68 ارب ڈالر تھا۔ حالانکہ اہم بات یہ ہے کہ مارچ 2024 کا تجارتی خسارہ 56.30 فیصد بڑھ کر 2.171 ارب ڈالر ہو گیا جو 2023 مارچ میں 1.389 ارب ڈالر تھا۔

جولائی تا مارچ 2024 میں ترسیلات زر میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ ہوا ۔ جو رواں سال 20.844 ارب ڈالر سے بڑھ کر 21.036 ارب ڈالر ہوگئیں، اس سال مارچ کی آمد میں ایک فیصد سے کم اضافہ ہوا حالانکہ اس میں مارچ 2023 کے مقابلے مارچ 2024 میں 31.2 فیصد اضافہ ہوا۔

اسٹیٹ بینک اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی جانب سے جاری کردہ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وزیر خزانہ کے اس دعوے کا کوئی ’پلان بی‘ نہیں ہے اور حکومت آئی ایم ایف سے بڑا اور طویل مدتی قرض مانگ رہی ہے، جس کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے۔

محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے قرض پر اتفاق ہو جانے کے بعد حکومت ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے، توانائی کے شعبے میں کیش بلیڈنگ کو ٹھیک کرنے، سرکاری اداروں میں اصلاحات، پی آئی اے اور دیگر خسارے میں چلنے والے یونٹس کی نجکاری کے لیے عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ وعدے ماضی میں بھی تمام حکومتوں کی جانب سے کیے جاچکے ہیں، لیکن ان کی سیاسی قیمت کو دیکھتے ہوئے کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ گویا اس وعدے کی کشش زیادہ ہے۔

اور اس کی عکاسی ایک خصوصی بزنس ریکارڈر کی رپورٹ سے ہوتی ہے جس میں وزیر اعظم کی طرف سے گزشتہ ماہ سات رکنی کمیٹی کی تشکیل کی تفصیل دی گئی تھی، جس کا نوٹیفیکشن 11 مارچ کو کیا گیا تھا، جس میں اب تک کمیشن کی گئی تمام پچھلی رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے گا، بشمول نیشنل کفایت شعاری کمیٹی کی سفارشات اور ایسے اقدامات جن کا مقصد اخراجات کو کم کرنا ہے، جس میں مستقبل میں ریٹائر ہونے والوں کے لیے کنٹریبیوٹری پنشن اسکیم متعارف کرانا، ترقیاتی سکیموں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے صوبائی شراکت داری شامل ہے۔

جب کہ وزیر خزانہ سات رکنی کمیٹی کے رکن نہیں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں آج ملک کو درپیش اقتصادی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ تاہم، مناسب طور پر سیکرٹری خزانہ کمیٹی کے رکن ہیں۔

بہت سو کو امید ہو گی کہ وزیر اعظم دفاع، سول آرمڈ فورسز، پولیس کو اس کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر نہیں رکھتے کیونکہ موجودہ اخراجات کے تمام وصول کنندگان سے ایک سے دو سال کی قربانی درکار ہے، ایسے میں معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنا آسان نہیں ہوگا اور بیرونی ذرائع سے مزید قرض لینے کی ضرورت ہوگی،اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی ہی معاشی استحکام کے حصول کے لیے راہ ہموار کرے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف