پنجاب کے چیف سیکرٹری کی جانب سے لگژری نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق گرفتاری کے حوالے سے دی گئی انکوائری کے حکم پر گہری نظر رکھی جائے گی کہ آیا واقعی محکمہ پولیس نے اس مجرمانہ سرگرمی میں ملوث کسی گینگ کا پردہ فاش کیا ہے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بار پھر اپنی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ذاتی مفادات کیلئے طاقتور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

یہ معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب بحریہ کے ایک ریٹائرڈ کپتان نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں درخواست دائر کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ اس کے بیٹے، بی بی اے کے طالب علم کو، جعلی ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کے بعد اس کے گھر پر چھاپے کے دوران غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔

دوسری جانب پولیس کا اصرار ہے کہ انہوں نے اس دھندے میں ملوث ایک گینگ کو بے نقاب کیا ہے جس میں پنجاب ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے کچھ حاضر سروس افسران بھی شامل ہیں۔

اگر یہ سچ ہے تو یہ ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے، خاص طور پر اگر سرکاری اہلکار اس گھوٹالے میں ملوث ہوں۔ لیکن یہ واضح سوال پیدا کرے گا کہ مذکورہ اہلکاروں کو کیوں نہیں پکڑا گیا اور اگرپکڑا گیا ہے تو اس معاملے کی اطلاع اب تک کیوں نہیں دی گئی؟ نیز،ہائیکورٹ کو یہ آبزرویشن دینے پر کیوں مجبور کیا گیا کہ لڑکے کو ”25 دسمبر 2022 کو پی پی سی کی دفعہ 392 کے تحت پولیس اسٹیشن چونگ میں 24 دسمبر 2022 کو نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیے گئے ایک مقدمے میں گرفتار دکھایا گیا تھا؟“ اور عدالت نے یہ بھی کیوں قرار دیا کہ اس عرصے کے دوران پولیس نے نہ تو کوئی عبوری رپورٹ پیش کی اور نہ ہی نامعلوم افراد کی رپورٹ درج کی کیونکہ اس کیس میں کبھی کوئی ملزم گرفتار ہی نہیں کیا گیا؟

ایسے سیدھے سادے سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں سرکاری انکوائری میں زیادہ دیر نہیں لگنی چاہیے۔ دریں اثنا، وفاقی حکومت کو دوبارہ سوچنا چاہیے کہ پورے ملک میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے یکساں پالیسی کیوں نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، سابق فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں) میں، ان کے استعمال کی اجازت ہے، یہاں تک کہ ان علاقوں کو کے پی (خیبر پختونخوا) میں ضم کرنے کے بعد بھی اس اجازت کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔ایسے میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دوسرے صوبوں کے پولیس اہلکارکو اس مسئلے سے نمٹنا پڑرہا ہے۔ شاید اب اس کیس کے سامنے آجانے کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے۔

پولیس فورس کو پیشہ ور، موثر قانون نافذ کرنے والا ادارہ بننے کیلئے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ اگر اس معاملے میں پولیس کی پوزیشن درست ہے اور گرفتار لڑکا واقعی مجرم ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کی گئی، اور ہم اس طرح کی کمزور گرفتاریاں کیوں دیکھتے ہیں؟

اس لیے اس سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر سیاسی مداخلت ہو رہی ہے اور پولیس حکام کو سیاست دانوں کے گھناؤنے کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے لیے انہیں عدالتوں کے چکر بھی لگانا پڑ رہے ہیں۔ تواس پر بہت سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر اس کیس نے اتنی دلچسپی پیدا کر دی ہے اور اب سب کی نظریں عدالت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے پر کیا کرتی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف