حالیہ برسوں میں پاکستان کو مطلوب ڈیجیٹل انقلاب کے اطراف بہت زیادہ تشہیر دیکھنے کو ملی ہے، جس میں ٹیکنالوجی کے ابھرتے منظر نامے کے ساتھ ای کامرس کاروبار، ٹیکنالوجی کمپنیوں، سافٹ ویئر ہاؤسز اورفری لانس اکانومی کا بہت زیادہ اضافہ ہواہے اور یہ ایک بڑی پرواز کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔

تاہم ڈیجیٹل تبدیلی کے ثمرات کے بارے میں اب بھی کافی شکوک اور شبہات موجود ہیں جو ملک کے سماجی اور اقتصادی تانے بانے میں گہرائی تک پہنچ چکےہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی پہلی ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ انڈیکس (ڈی ڈی آئی) جو پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کی پیشرفت کا احاطہ کرتی ہے، کی رپورٹ کے نتائج جو 23 اپریل کو جاری ہوئے تھے، ان شکوک و شبہات کو ٹھوس بنانے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔

ڈی ڈی آئی رپورٹ کی اہم بات جو فوری طور پر توجہ حاصل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں۔ 54.3 فیصد آبادی کے پاس اس حوالے سے وسائل کی کمی ہے جس کی بڑی وجہ ناکافی انفرااسٹرکچر اور مالی گنجائش یا پھرمہنگائی ہے۔

یہ حقیقت کہ پاکستان میں امیر طبقے نے غریب طبقے کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ڈیجیٹل ترقی کی ہے اس بات پر توجہ مرکوزکرتی ہے کہ دولت کس طرح ڈیجیٹل فواد سمیٹنے میں کسی اک شخص کی صلاحیت بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

اس طرح ڈیجیٹل تبدیلی پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اضلاع اور انسانی ترقی میں اعلیٰ نتائج حاصل کرنے والے اضلاع کے درمیان بھی تعلق پایا گیا جو کہ ڈیٹجیل تقسیم پر مزید روشنی ڈالتا ہے جس نے ملک کے مختلف حصوں میں سماجی اقتصادی اور انسانی ترقی کے حوالے سے عدم مساوات پیدا کی ہے۔

اس ڈیجیٹل تقسیم کی صنفی جہت بھی قابل ذکر ہے کیوں کہ انہیں بھی ڈیجیٹل سہولت انتہائی کم فراہم کی جارہی ہے، کیوں کہ اس بارے میں پوچھے جانے پر 83.5 فیصد خواتین نے حیران کن جواب دیاکہ موبائل فون رکھنے کے فیصلے کیلئے ان کے پاس اختیار نہیں اور یہ فیصلہ والدین یا ان کے شریک حیات کا ہوتاہے۔

مردوں کے معاملے میں یہ تضاد بالکل واضح ہے کیوں کہ77 فیصد کہنا ہے کہ یہ ان کا فیصلہ ہے، ڈیجیٹل ترقی کی بات کی جائے تومذکورہ عوامل کے سبب ہی پاکستان کو ماڈریٹ کیٹیگری میں رکھا گیاہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی ترقی کے انڈیکس اور صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں پاکستان رینکنگ کم ہوئی ۔

رپورٹ میں جن حوصلہ افزا عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے اس میں ملک کے اندر 87.35 ملین انٹرنیٹ صارفین کا ہونا بھی شامل ہیں، جس میں موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بھی شامل ہیں جس کی خاص وجہ موبائل انٹرنیٹ کے کم ریٹس ہیں، تاہم اس وقت معیار کے چیلنجز کے ساتھ براڈ بینڈ کے فکسڈ اخراجات بہت سے لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔

تاہم جب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور ٹیبلٹس تک رسائی کی بات آتی ہے تو مسئلہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت ای کامرس حوصلہ افزا طور پر آمدنی پیدا کرنے کے لحاظ سے دنیا کا 36 واں بڑا شعبہ ہے تاہم اب بھی ترقی کیلئے یہاں بہت سے ایسے امکانات یا صلاحیتیں موجود ہیں جوکہ استعمال نہ ہوسکے ہیں۔

مختلف شعبوں میں جدت اور کارکردگی کو فروغ دینے ، انسانی ترقی کے اشاریوں میں بہتری کیلئے نئے مواقع سامنے لانے سے متعلق ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ کی اہمیت پر مبالغہ آرائی نہیں کی جاسکتی تاہم وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز بجلی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی ضروری خدمات کی طرح ناگزیر ہو چکی ہیں۔

تاہم بظاہر سیاسی مقاصد کیلئے انٹرنیٹ کی مسلسل من مانی بندش، رپورٹ کے مطابق جس کی وجہ سے روزانہ اہم نقصانات ہوتے ہیں، ایک ایسے ملک کے اقدامات نہیں ہیں جو اس اہم ذریعے کو اس کے شایان شان اہمیت دیتا ہے۔

اس طرح کے غیر منطقی ، سخت اقدامات کی حوصلہ شکنی کیلئے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی انٹرنیٹ تک ناقص رسائی، ڈیٹا کی ناکافی رازداری و سیکورٹی، ای کامرس ریگولیٹری ماحول میں عدم مطابقت اور آن لائن پیمنٹ سسٹم کو درپیش مسائل دور کرنے کیلئے فوری پالیسی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ یو این ڈی پی کے ایک عہدیدار نے نشاندہی کی ہے کہ مخصوص ڈیجیٹل منتقلی سماجی و اقتصادی ضروریات کے مطابق اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور اس سے پائیدار انسانی ترقی کا حصول ممکن ہوگا۔

Comments

200 حروف