رائے

کارپوریٹ امور پر دوبارہ غور کریں

رشوت لینا، ٹیکس فراڈ کی تحقیقات،اسکام کنٹرولز یہ کسی بھی کارپوریٹ پبلک افیئر ڈیپارٹمنٹ کے لیے کچھ غیر رسمی باتیں...
شائع April 24, 2024 اپ ڈیٹ April 25, 2024

رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ کی تحقیقات،اسکام کنٹرولز یہ کسی بھی کارپوریٹ پبلک افیئر ڈیپارٹمنٹ کے لیے کچھ غیر رسمی باتیں تھیں۔ اندرونی طور پر، یہ ان لوگوں کا شعبہ تھا جن کو کہیں اور جگہ دینے کی ضرورت تھی۔

اگربیرونی خدمات حاصل کرنی ہو تو عام طور پر حکومت اور اداروں میں مضبوط تعلق رکھنے والے سابق لابیسٹ کو شارٹ لسٹ کرنے پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ کارپوریٹ امور کو کمپنیوں کی بنیادی سرگرمیوں کے لیے ایک سائیڈ لائن ڈپارٹمنٹ سمجھا جاتا تھا۔ پھر سوشل میڈیا کا دور آگیا۔

میلینیلز کی بات کریں یا جنریشن زی کی۔ اب انسٹا جنریشن کمپنیوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر رد عمل دینے کیلئے لیے بحث کررہی ہیں

اس نے کمپنیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیسے نمٹا جائے جو نتائج کے پروا کئے بغیر کسی بھی وقت، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ صرف ایک اور “تبلیغی تحریر ہے، تو ذرا دیکھیں کہ میکڈونلڈ اور اسٹار بگس جیسی بڑی کمپنیاں عوامی معاملات کے حوالے سے کیسی تباہی کا سامنا کررہی ہیں۔

یہ احساس کہ کمپنیاں اب صرف اپنے صارفین کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، یہ بات ان کے سربراہوں کو ہضم ہونے میں کچھ وقت لگا۔ امیج بلڈنگ ایک مشق تھی جسے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹس، ایچ آر ایمپلائی برانڈنگ اور پبلک افیئر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے ۔کارپوریٹ امور کو صرف پریس ریلیز جاری کرنے تک محدود سمجھا جاتا تھا۔

ان کیلئے کارپوریٹ بورڈ کے اجلاس، سالانہ رپورٹس اور وضاحتیں اہم ہوتی تھیں۔ یہ شعبہ ایک ایسا بعد میں آنے والا خیال تھا جس کا شاید ہی اہم اسٹریٹجک کاروبار میں تصور ہو۔ پبلک افیئرز کے لیے اس کے پاس ”سائیڈ لائن میٹ اپ اپروچ“ ہے اور اس سے کمپنیوں کو بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی رہے گی۔

اسٹیک ہولڈرز کی فہرست میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، ان کے رشتہ داروں کی طاقت اور ان کی رسائی کا کارپوریٹ بورڈ رومز میں حیرت انگیز اثر ہوا۔ انہیں کھیل میں صرف نئے کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے کمپنی کے سوچنے اور برتاؤ کے طریقے کو مکمل طور پر دوبارہ ڈیزائن کرنا ہوگا۔ کچھ “ضروری اقدامات یہ ہیں۔

اسٹریٹیجک منصوبہ بندی اور کارپوریٹ امور کا اضمام۔ اسٹریٹجک منصوبہ بندی ترقی اور کامیابی کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے جبکہ کارپوریٹ امور ساکھ بہتر بنانے کے بارے میں ہیں۔ یہ معاملہ اگرچہ زبانی طور پر کاروبارچلانے کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے، لیکن بورڈ رومز اور ایگزیکٹو میٹنگز میں کارکردگی کی ترجیحات کو لیکر شاید ہی اس پر کبھی غور کیا گیا ہو۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق، اوسطاً کسی کمپنی کی مارکیٹ ویلیو کا 25 فیصد سے زیادہ حصہ براہ راست اس کی ساکھ سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ ایک ویک اپ کال ہے۔

اگر آپ کے کاروبار کا ایک چوتھائی حصہ کمپنی کی ساکھ کے بارے میں ہے، تو پھر اسے ایک نظر انداز محکمے کے سپرد کیسے کیا جاتا ہے، جو ایک کرائسس سیل سے کم تر ہے؟ کارپوریٹ ڈیپارٹمنٹ کے کردار کے بارے میں زیادہ تر کیس اسٹڈیز پروڈکٹ کی ناکامیوں کے حوالے سے ہیں۔

دواسازی کی صنعت کو کارپوریٹ امور کی ایک مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ادویات کمپنیاں بعض اوقات دوا کے مہلک اثرات کو اس وقت تک چھپاتی ہیں جب تک کہ کوئی اسکینڈل سامنے نہ آجائے۔ یہ مثال کئی سطحوں پر اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

کارپوریٹ امور کے لیے ساکھ بنانے اور اسکی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے کمپنی مطلوبہ ساکھ کے مطابق پیشین گوئی، منصوبہ بندی اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو۔

اعلیٰ درجے کے پیشہ ور کی خدمات حاصل کریں۔ بہت کم کمپنیاں واقعی اس کام کے لیے بہترین ٹیلنٹ کی خدمات حاصل کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ عام طور پر ایک سینئر ملازم جس کی کمپنی میں سنیارٹی ہوتی ہے لیکن معمولی کارکردگی اسے فرنٹ پوزیشنز کے لیے نا اہل بناتی ہے،اس کو ریٹائرمنٹ سے پہلے اس کام کیلئے چن لیا جاتا ہے ، یا پھر کسی سابق بیوروکریٹ/مسلح افواج کے فرد کو یہ کام کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔

محکمہ کے نام، عہدے اور کردار کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹریٹجک میٹنگز میں بیٹھنے کے لیے اسے ڈائریکٹر کی سطح کا عہدہ ہونا چاہیے۔ یہ بطور چیف اسٹیک ہولڈر آفیسر کا عہدہ ہوسکتا ہے۔

اس کا کردار اندرونی اور بیرونی طور پر کارپوریٹ ساکھ کا اندازہ لگانا ہے۔ اصل کام پوری کارپوریشن کی آنر شپ کا نظام بنانا اورکارپوریٹ گروتھ میں اپنا حصہ ڈالنا ہے، جس کا 25 فیصد اس کی ساکھ پر منحصر ہے۔

تین درجوں پر مشتمل حکمت عملی ہونی چاہیے۔ قریب اور دور تمام اسٹیک ہولڈرز کی شناخت کا ایک نظام جو کاروبار کو مثبت یا منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔اہم اسٹریٹجک منصوبوں کے ساتھ منسلک منصوبے بنانا اور اسٹیک ہولڈرز میں منفی جذبات پھیلنے سے قبل از وقت روکنا اس میں شامل ہے۔

کومسٹیک سسٹم تیار کریں۔ زیادہ تر کمپنیاں واٹس ایپ، فیس بک، بلاگز، انٹرانیٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے اندرونی مواصلاتی نظام تیار کرنے میں بہت مستعد ہیں۔

تاہم آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دور دور تک نظر ڈالی جائے اور رابطے بڑھائے جائیں۔ کارپوریٹ ساکھ ایک بہت ہی پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے جو کسی کمپنی کو متاثر کر سکتا ہے چاہے وہ دنیا میں بہترین معیار کی مصنوعات تیار کر رہی ہو۔

اس تیزی سے بدلتی ڈیجیٹل دنیا میں، کارپوریشنوں کو بیرونی ماحول کی تشخیص اور پتہ لگانے کیلئے تیزی سے نظام تیار کرنا ہے۔ کسی بھی تبدیلی سے چوکنا رہنے کے لیے بین الاقوامی/علاقائی جذبات کی حساسیت کا تجزیہ ضروری ہے۔

کومسٹیک سسٹمز کو عوامی جذبات پر نظر رکھنے کے لیےسماجی طور پر سننے ( سوشل میڈیا پر نظر رکھنے)کی ضرورت ہے۔ آپ عوامی جذبات کی نبض پر ہاتھ رکھنے کیلئے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان جذبات کا اظہار عام طور پر مثبت، غیر جانبدار اور منفی طوپرکیا جاتا ہے۔

سماجی طورپر سننے والے ٹولز آپ کو منتخب کردہ کی ورڈ (جیسے آپ کے برانڈ کا نام، سی ای او، یا مخصوص مصنوعات) کو ٹریک کرنے میں مدد کر سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ کومسٹیک ٹولز میں Google Alerts، TweetReach، BuzzSumo، Sprout Social، Hootsuite، Buffer وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔

کارپوریٹ کوریڈورز سے آگے ایک ویلیو سسٹم تیار کریں — وہ کمپنیاں جو پہلے اپنے صارفین اور کمیونٹیز کے سامنے جوابدہ تھیں وہ خود کو دنیا کے ہر کونے میں جوابداہ پا رہی ہیں۔

غزہ کی جنگ نے اس افسانے کو توڑ دیا ہے کہ این جی اوز اور سماجی کارکن کچھ ہنگامے کرتے ہیں لیکن یہ بغیر کسی نقصان کے ختم ہو جاتا ہے۔ اس جنگ کی اس قدر عالمگیر مذمت ہوئی کہ بہت سے ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

یورپ نے گولان کی پہاڑیوں پر امریکی موقف کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میکڈونلڈ نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ عوامی بائیکاٹ سے ان کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کی کارپوریٹ ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ پہلے کسی کمپنی کی بنیادی اقدار زیادہ تر ایک اندرونی معاملہ ہوتی تھیں جو بڑے بیانات دینے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

تاہم، عوام نے دیانتداری کے ساتھ کہا کہ ہم نے صحیح کام کیا ہے۔ اسرائیل کی بمباری سے بچوں کے مرنے کے مناظر نے پوری دنیا میں عوام کو مشتعل کر دیا ہے۔ اس طرح کارپوریٹ ویلیو سسٹم ایک بڑا ہدف بن سکتا ہے، اگر اسے پیشہ ورانہ موقف اختیار کرنے میں پرمجبور نہیں کیا جاتا۔

Comments

Comments are closed.