حالیہ ’Transcript of Global Financial Stability Report April 2024 press briefing‘,، نے بنیادی طور پر شرح سود پر انحصار کرتے ہوئے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی روایتی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ممکنہ ضرورت کے حوالے سے ایک بہت ہی مناسب سوال اٹھایا ہے،اس نسخے کے مسلسل اور زیادہ استعمال نے درمیانی اور کم آمدنی والوں کو نقصان پہنچایا ہے اور مطلوبہ نتائج بھی نہیں دئیے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ٹوبیاس ایڈریان کا جواب تھا: ’آپ جانتے ہیں، پاکستان ایک قرض پروگرام میں ہے اور میکرو چیلنجز بھی ہیں، جن میں مالیاتی شعبہ اور مرکزی بینک کی پالیسیاں شامل ہیں بلکہ وسیع تر میکرو اور مالیاتی مسائل بھی ہیں۔

آپ جانتے ہیں، ایڈجسٹمنٹ کے نتائج آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔’ مزید برآں، اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے، آئی ایم ایف کے جیسن وو نے کہا کہ ’درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ طلب اور رسد دونوں ہی افراط زر پر اثر ڈالتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے دونوں طرف سے پالیسی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے معاملے میں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی گزشتہ دو یا تین سالوں سے سخت ہوتی جا رہی ہے۔

جس سے مہنگائی کم ہونے کا امکان بھی ہے، لیکن اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس مں طلب والا معاملہ بھی شامل ہے۔ مالیاتی استحکام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں سپلائی سائیڈ بھی اہم ہے، سب کو پتا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور ریاست کے کاروباری ادارے بھی اس میں شامل ہے۔

آنے والے مہینوں میں، پاکستان ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے پروگرام میں داخل ہونے جا رہا ہے، جو میکرو اکنامک استحکام پر توجہ دینے کے ساتھ معاشی ترقی سے متعلق بھی ہے۔ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ معاشی ترقی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، ہر چند برس بعد افراط زر کافی تیزی سے بڑھتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں ملک نے بنیادی طور پر طلب میں کمی کی پالیسیاں اپنائی ہے اور بلند شرح سود کر افراط زر قابو کرنے کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سپلائی سائیڈ کی کمی اور گورننس کے ذریعے مہنگائی کم کرنے کیلئے معاشی نمو کی قربانی دینی پڑی، جس کے نتیجے میں لاگت میں اضافہ ہوا ہے، برآمدات کی پیداوار میں کمی کے پیچھے درآمدی افراط زر میں اضافہ بھی وجہ ہے۔

اپریل 2024 ورلڈ اکنامک آؤٹ لک کی رپورٹ، جو حال ہی میں آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کی گئی ہے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک کمزور نقطہ نظر کا اندازہ لگایا گیا ہے، جس کے تحت جولائی تا جون 2023-24 کے لیے، حقیقی جی ڈی پی 2 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا، جو جولائی تا جون 2024-25 کے لیے 3.5 فیصد تک ہی تھوڑا سا بہتر ہوا ہے۔

مزید برآں، افراط زر کے حوالے سے، آئی ایم ایف کے تخمینے بظاہر بہت مضبوط پیشگوئی کر رہے ہیں جبکہ مالی سال 2024-25 کے دوران افراط زر میں 12.1 فیصد کی کمی کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، دنیا کو بحران اورتصادم کی صورت حال بھی درپیش ہے، جس سے صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔

پاکستان کو ایک طرف موسمیاتی تبدیلی سے نمٹںے کیلئے معاشی ترقی کی ضرورت ہے، اور وبائی امراض کے نتائج سے بچنے کی ضرورت ہے، یہ خط غربت سے نیچے گرنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کورونا کے وبائی دور میں غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔ مزید برآں، ملک کو ایسی اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی نہ ہو، جس کے لیے بہت زیادہ متوازن طلب اوررسد پر زور دینا ہوگا،جس میں سماجی جمہوری طرز کی اقتصادی ادارہ جاتی، تنظیمی اور مارکیٹ اصلاحات شامل ہیں۔

آئی ایم ایف درمیانی مدت کے لیے بڑھا ہوا خصوصی ڈرائنگ رائٹس (SDRs) مختص کر سکتا ہے تاکہ انسداد سائیکلیکل پالیسی کی حمایت کی جا سکے – دونوں ہی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف بہتر ہے، دوسری صورت میں زیادہ غربت اور آمدنی میں عدم مساوات کی سطح کو کم کرنے کے لیے، مثبت سیاسی آواز اور مجموعی جمہوری کلچر اہم ہے ۔ جبکہ ملکی وسائل کو متحرک کرکے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانا انتہائی ضروری ہے، جس کیلئے کھپت پر مبنی ٹیکس کے بجائے انکم ٹیکس بڑھانے کی طرف منتقل ہونا پڑیگا۔

آئی ایم ایف کی طرف سے حمایت اہم ہے، کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے سب سے بڑے چیلنج والے ممالک میں سے ایک ہے، اور زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے، جس کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ سیاسی نظام کمزور ہے کیونکہ ہم نے جمہوریت کو بااختیار بنانے کیلئے تعلیمی اور معاشی طور پر بہت کم سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمیں ابھی عوامی نمائندوں پر دبائو ڈال کر ٹیکس بنیاد کو بڑھانے اور ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کروانے میں وقت لگے گا۔ٹیکس کے بوجھ کو بہتر بناکر زیادہ ٹیکس لینے کیلئے نظام میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

لہذا امید کی جاتی ہے کہ ممکنہ آئی ایم ایف توسیع پروگرام افراط زر سے نمٹنے کے لیے زیادہ متوازن انداز اپنائے گا، جیسا کہ اوپر اس کا ذکر بھی ہوچکا ہے- آئی ایم ایف پاکستان کو درمیانی مدت کے لیے، سالانہ بنیادوں پر SDR بھی فراہم کرتا ہے۔

مزید برآں، آئی ایم ایف کو اپنی بدنام زمانہ ’سرچارج‘ پالیسی کو منسوخ کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی ملک، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جن کے پاس مالی گنجائش کم ہے، اور اخراجات کی خاطر خواہ ضروریات ہیں، ’فضول‘ فیس ادا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر

Comments

Comments are closed.