بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کیلئے مالی سال 2023 میں منفی0.2 فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو دو فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ فنڈ نے پیش گوئی ہے کہ ملک میں شرح مہنگائی29 اعشاریہ 2 فیصد سے کم ہوکر 24 اعشاریہ 8 فیصد اور بیروزگاری کی شرح بھی 8 اعشاریہ5 فیصد سے کم ہوکر 8 اعشاریہ 5 فیصد ہوجائے گی۔

فنڈ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ، ”ورلڈ اکنامک آؤٹ لک:(ڈبلیو ای او) مستحکم لیکن سست: ریسلینس امیڈ ڈائیورجینس“ منگل کو جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2025 میں پاکستان کی جی ڈی پی 3.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

فنڈ نے رواں مالی سال کے لیے شرح مہنگائی کا تخمینے 24.8 فیصد تک اور مالی سال 2025 میں 12.7 فیصد کر دیا ہے جو مالی سال 2023 میں 29.2 فیصد تھا۔

آئی ایم ایف کے مطابق ملک میں بے روزگاری 2023 میں 8.5 فیصد کے مقابلے میں 2024 میں کم ہو کر آٹھ فیصد اور 2025 میں 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا تخمینہ 2024 کے لیے منفی 1.1 فیصد ہے جوکہ 2023 کیلئے منفی 0.7 فیصد تھا اور 2025 کے لیے منفی 1.2 فیصد لگایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت کیلئے بنیادی پیش گوئی کی گئی ہے کہ وہ 2024 اور 2025 کے دوران اسی رفتار 3.2 فیصد کی شرح سے ترقی کرتی رہے گی جو کہ 2023 میں تھی۔ یعنی ترقی یافتہ معیشتوں میں معمولی تیزی آئی گی، جس کے مطابق 2032 کی شرح نمو 1 اعشاریہ 6 فیصد کے مقابلے میں رواں سال شرح نمو17 فیصد اور 2025 میں ایک اعشاریہ 8 فیصد رہے گی۔ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر معیشتیں معمولی سست روی سے 2023 میں 4.3 فیصد کے مقابلے میں 2024 اور 2025 دونوں میں 4.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

2022-23 میں عالمی تنزلی کے دوران معاشی سرگرمی حیرت انگیز طور پر لچکدار تھی۔ جیسے ہی مہنگائی 2022 کے وسط سے اپنے عروج پر آئی، معاشی سرگرمیاں بتدریج بڑھیں، جمود اور عالمی کساد بازاری کے انتباہات مسترد کردیے۔

روزگار اور آمدنی میں اضافہ مستحکم رہا، جو کہ معاون طلب پیش رفت کی عکاسی کرتا ہے، جس میں توقع سے زیادہ حکومتی اخراجات اور گھریلو استعمال شامل ہیں- روزگار کے مواقع بڑھانے کی پالیسی یعنی سپلائی سائیڈ میں توسیع، خاص طور پر لیر فورس کی شرکت سے متعلق غیر متوقع فروغ پایا گیا۔

غیرمتوقع اقتصادی لچک، قیمتوں میں استحکام کو بحال کرنے کے مقصد سے مرکزی بینک کی شرح سود میں نمایاں اضافے کے باوجود، وباکے دوران بڑی ترقی یافتہ معیشتوں میں گھرانوں کی جمع ہونے والی خاطر خواہ بچتوں کو حاصل کرنے کی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

چوں کی افراط زر یعنی شرح مہنگائی بدلتی رہتی ہے اور مرکزی بینک کا نقطہ نظر معیشتوں میں پالیساں نرم کرنے پر مرکوز ہوتا ہے تاہم ٹیکسز کی بھرمار اور کم سرکاری خرچ سے حکومتی قرضوں میں کمی لانے کی سخت مالیاتی پالیسوں سے ترقی پر بوجھ پڑے گا۔

Comments

Comments are closed.