شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا ۔اجلاس میں بورڈ چینی کی برآمد کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں ناکام رہا جبکہ اس معاملے پر مزید غور و خوض کے لیےعید الفطر کی تعطیلات کے بعد پھراجلاس منعقد کیا جائیگا۔

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت بورڈ اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشنز (پی ایس ایم اے ) سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پرچینی کے اسٹاک کی دستیابی، مارکیٹ کی موجودہ قیمتوں، گنے کے نرخوں،عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں اور صنعت کی پیداواری لاگت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس کے دوران پی ایس ایم اے کے نمائندوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 1.6 ملین ٹن اضافی چینی موجود ہے جسے برآمد کیا جانا چاہیے۔

پی ایس ایم اے کے وفد نے حکومت کو تجویز دی کہ پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ٹن تک ریفائنڈ چینی برآمد کی جائے جس سے ملک کو 650 سے 700 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو گا اور بقیہ 0.6 ملین ٹن چینی مئی اور جون 2024۔میں دو مرحلوں میں برآمد کی جائے ۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال گنے کی قیمت 350 روپے فی 40 کلو گرام تھی جو اب 450 روپے فی 40 کلو گرام تک پہنچ گئی ہے، اس وقت چینی کی پیداواری لاگت 170 روپے فی کلو ہے جبکہ ریٹیل مارکیٹ میں ریفائنڈ چینی 145 سے 150 روپے کلو کے درمیان دستیاب ہے جو دنیا میں سب سے کم قیمت ہے۔

پی ایس ایم اے کے وفد نے یہ بھی بتایا کہ اگر حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت نہ دی تو اس کے نتیجے میں اس اجناس کی ایران، افغانستان اور دیگر ممالک کو اسمگل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ملک قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہو جائے گا۔

پی ایس ایم اے حکام نے بتایا کہ مقامی طور پر چینی کی پیداواری لاگت تقریباً 503 ڈالر فی ٹن ہے جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ 650 ڈالر فی ٹن ہے، انہوں نے کہا کہ چینی کی برآمد کی اجازت سے صنعت اور ملک دونوں کو فائدہ ہوگا۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں چینی کا صنعتی استعمال 85 فیصد ہے اور باقی 15 فیصد گھریلو استعمال پر ہے۔ مزید برآں چینی پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) ہے۔

Comments

200 حروف