پاکستان میں ٹیکس پالیسیاں سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں،ورلڈ بینک
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس پالیسیاں تجارتی شعبے میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں،جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیخلاف امتیازی قانون موجود ہیں۔
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ، ساؤتھ ایشیا ڈیولپمنٹ اپڈیٹ جابز فار ریزیلینس میں کہا ہے کہ سیلز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس سسٹم میں آمدنی کی صلاحیت بڑھانے کیلئے اس کو مناسب طریقے سے ڈیزائن کرنا ضروری ہے۔ موجودہ سیلز ٹیکس کی محدود بنیاد اور رعایتی شرحوں کی وجہ سے سے ملک کو ٹیکس کی آمدنی کی صلاحیت کا 15 فیصد ہی حاصل ہو پاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں شرح نمو 2.3 فیصد تک رہنے کی امید ہے۔ تاہم، افراط زر بلند رہنے کی توقع ہے، توانائی پر سبسڈی میں کمی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے ۔ یہ پراگرام مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
بھوٹان، نیپال اور پاکستان میں سرکاری اداروں کو دی جانے والی سبسڈیز یا بجٹ میں کمی سے نجی شعبے کا کردار بڑھ سکتا ہے۔ جبکہ بجٹ کٹوتی کی وجہ سے حکومت دیگر پراجیکٹ پرخرچ کرسکتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی سرکاری اداروں میں سرمایہ کاری کی شرح کم ہے، جبکہ مالی سال 2023 میں مالیاتی خسارے کا تقریباً 23 فیصد سرکاری اداروں کو جاتا ہے۔
پاکستان میں 2021 اور 2023 کے درمیان اسٹیٹ بینک نے سخت پالیسی اختیار کرتے ہوئے شرح سود کو 22 فیصد تک بڑھایا ہے۔
اس دوران اوپن مارکیٹ ایکسچینج ریٹ اور ایڈمنسٹرڈ ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق کو کم کر دیا گیا ہے۔ ان اقدامات نے مالیاتی منڈیوں کو مستحکم کرنے، سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور 2023 میں خاطر خواہ گراوٹ کے بعد کرنسی کی قدر میں اضافے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم پیداواری گارمنٹس سیکٹر میں روزگار میں تیزی سے اضافہ ہوا، لیکن خدمات کے شعبے کی ملازمتیں کم ہوئی ہیں۔
جنوبی ایشیائی ممالک کی کارکردگی صنفی مساوات کے حوالے سے خراب رہی ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، اور سری لنکا خواتین کی مساوی تنخواہ کو فروغ دینے والے قوانین کے لحاظ سے کافی پیچھے ہیں۔
Comments
Comments are closed.