حکومت نے ہفتہ کے روز مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کیا۔
مسودے کے مطابق جس میں عدالتی تقرری کے عمل میں اہم تبدیلیوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر ججوں میں سے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
مجوزہ ترامیم میں وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لیے سات رکنی آئینی کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔
مزید برآں ججوں کو ہٹانے کے لیے وفاقی آئینی عدالت بھی تشکیل دی جائے گی۔ وفاقی آئینی عدالت میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی جائے گی جبکہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 3 سال تک محدود رہے گی۔
مسودے میں اس شق کو ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے جس کے تحت سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بننے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے بجائے پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کی سفارش وزیر اعظم کو کرے گی جو اس نام کو منظوری کے لیے صدر کو بھیجے گی۔
پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل مختلف جماعتوں کی نمائندگی کی عکاسی ان کے اراکین اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر کی جائیگی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال برقرار رہے گی جبکہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 3 سال ہوگی۔
ترمیم کا مقصد چار صوبائی آئینی عدالتوں کے ساتھ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کرنا ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے ابتدائی چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کے مشورے کی بنیاد پر صدر کریں گے اور پہلے مرحلے میں ججز کا تقرر صدر مملکت اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
آگے چل کر آئینی عدالتوں کے لیے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری سات رکنی آئینی کمیشن کی ذمہ داری ہوگی جس میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس، دو سینئر ججز، چیف جسٹس کی جانب سے نامزد ایک ریٹائرڈ جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
کمیشن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان بھی شامل ہوں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز تین سال تک اپنی خدمات سرانجام دیں گے اور ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے۔
آئینی ترمیم کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی درکار ہوگی جس کے تحت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو مزید کارروائی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے سے قبل بہتری کے مواقع مل سکیں گے۔
مزید برآں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا لقب تبدیل کرکے ”سپریم کورٹ کا چیف جسٹس“ کر دیا جائے گا اور آرٹیکل 63-اے میں اختلاف رائے رکھنے والے ارکان کے ووٹوں کی گنتی کی دفعات شامل ہوں گی۔