حکومت آئندہ بجٹ مالی سال 26 میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کمی اور دیگر مدوں میں ٹیکس ریلیف فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

وہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں دستیاب مالی گنجائش کا استعمال کرتے ہوئے اور جون-2024 کے بعد سے مرکزی بینک کی جانب سے اہم شرح سود میں 10 فیصد پوائنٹس کی نمایاں کمی کے ذریعے ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ٹیکس مراعات سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں مدد ملے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ڈویژن ہارون اختر خان نے ہفتے کے روز کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کارپوریٹ ٹیکس کو معقول بنانا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تیل کی گرتی ہوئی (بین الاقوامی) قیمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک زبردست قدم اٹھایا اور آئی ایم ایف کو بجلی کی قیمتوں میں کمی پر راضی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے وزیر اعظم سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے بچائی گئی رقم کو بجلی کے نرخوں اور کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں مزید کمی کے لیے استعمال کیا جائے۔

یاد رہے کہ مالی سال 2020-21 کے آغاز سے اب تک کارپوریٹ ٹیکس کی ’بنیادی‘ شرح 29 فیصد تھی۔ گزشتہ چند برسوں میں 150 ملین روپے سالانہ یا اس سے زیادہ خالص منافع حاصل کرنے والے اداروں کے لئے 10 فیصد پر سپر ٹیکس کے اضافے کے ساتھ یہ 39 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ بینکوں کے لئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 39 فیصد تھی۔ گزشتہ کیلنڈر سال 2024 میں مالیاتی اداروں کے لئے اضافی 15 فیصد سپر ٹیکس کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوا۔ رواں کیلنڈر سال 2025 میں بینکوں کے لئے سپر ٹیکس 14 فیصد رہا۔

بزنس ریکارڈر کو معلوم ہوا ہے کہ 2026 اور 2027 میں یہ مزید کم ہو کر 13 فیصد رہ سکتی ہے۔

پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) سے خطاب کرتے ہوئے شعیب اختر نے کہا کہ میں پہلے ہی واضح کر چکا ہوں کہ میں آئندہ بجٹ میں ٹیکس جاری رکھنے کے بجائے سپر ٹیکس ختم کرنے کے حق میں ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کو کچھ مالی گنجائش ملنے کے بعد حکومت جہاں ممکن ہو وہاں دیگر مدوں میں ٹیکس ریلیف دینے پر غور کر رہی ہے، خاص طور پر صنعتوں کو۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے جون 2024 کے بعد سے مجموعی طور پر اپنی پالیسی (سود) کی شرح میں 10 فیصد پوائنٹس کی کمی کر کے اس وقت 12 فیصد کر دی ہے۔ اس سے قرض پر سود کی ادائیگی میں کمی آئی ہے ، جس سے حکومت کے ساتھ مالی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مالی میدان میں ایک اچھی چیز ہو رہی ہے۔ چونکہ شرح سود میں کمی آئی ہے اس لئے حکومت کے پاس کچھ مالی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت ہم اس مالی جگہ کو استعمال نہیں کر سکے کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے۔

انہوں نے کے سی سی آئی میں کہا کہ اگلے بجٹ میں ہم ٹیکسوں میں کچھ ریلیف دینے کے لئے مالی گنجائش کو استعمال کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

پی بی سی میں اپنے اجلاس کے موقع پر بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون اختر نے واضح کیا کہ آئندہ بجٹ کا مطلب مالی سال 26 کا آئندہ بجٹ ہے۔

انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں مزید کہا کہ کے سی سی آئی کے ایک رکن نے درست کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ملک آئندہ دو سال تک نہیں کر سکے گا، لیکن اسی مدت میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے “کیونکہ سب کچھ ڈونر ایجنسیوں کی طرف سے طے نہیں کیا جاتا ہے۔ بہت ساری پریشانیاں جو ہم نے ماضی میں پیدا کی ہیں، اس حکومت نے نہیں، وہ ہماری اپنی ہیں، ہم اسے ہٹا سکتے ہیں … (بشمول) کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو معقول بنانا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایکسپورٹ فنانس اسکیم (ای ایف ایس) کے تحت کچھ ریلیف دے کر برآمد کنندگان کوسہولت فراہم کرنے کے لئے بھی کام کر رہی ہے۔

ایس اے پی ایم کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں نیا کاروبار قائم کرنے کے لئے تقریباً 350 سرٹیفکیٹ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں سمیت این او سی حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک دوسرے کے سامنے جانا پڑتا ہے۔ اس کو دور کرنا ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک صنعتی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ ’’آدھا کام پہلے ہی ہو چکا ہے۔ یہ وزیر اعظم کی جانب سے مجھے سونپا گیا اولین ذمے داری ہے۔

Comments

200 حروف