حکومت کی جانب سے آئندہ بجٹ کی تیاریاں شروع ہونے کے ساتھ ہی ٹیکس کے بوجھ تلے دبے تنخواہ دار افراد نے مشترکہ طور پر وزارت خزانہ کو تجاویز پیش کی ہیں جن میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ انکم ٹیکس سے مستثنیٰ تنخواہوں کی حد دگنی کرکے 12 لاکھ روپے سالانہ کی جائے۔

اس وقت 6 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے شخص کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے اتحاد ”سیلریڈ کلاس الائنس پاکستان“ نے اپنی بجٹ تجاویز میں لکھا ہے کہ تنخواہ دار افراد پہلے ہی زیادہ افراط زر کے دوران جامد تنخواہوں کے ساتھ مشکلات کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ایک معقول معیار زندگی برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ شیئرز، میوچل فنڈز اور انشورنس میں سرمایہ کاری پر پہلے سے دستیاب ٹیکس مراعات کو بحال کرے اور آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کے ذریعے معیشت کے رسمی شعبوں میں کام کرنے والے افراد کے لئے اضافی 10 فیصد سرچارج ختم کرے۔

تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ خط پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کے بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ اور ایک ایسے منصفانہ ٹیکس نظام کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مودبانہ انداز میں لکھ رہے ہیں جو شہریوں کو درپیش معاشی حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

الائنس نے بتایا کہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی 2019 میں 76 ارب روپے سے بڑھ کر 2025 میں 570 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ہم محصولات کی وصولی میں اضافے کے لئے حکومت کے عزم کو سراہتے ہیں لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس اضافے نے ہمارے ملک کے تنخواہ دار طبقے کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا ہے۔

انہوں نے مزید وزارت سے درخواست کی کہ وہ تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس سلیب کو موجودہ زندگی کے اخراجات اور عالمی بہترین طریقوں کے مطابق ایڈجسٹ کرے۔

حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کم از کم ٹیکس کی شرح کو فنانس ایکٹ 2024 سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کیا جائے جس میں 10 فیصد اضافی سرچارج ختم کرنا بھی شامل ہے۔ سرچارج تعزیری نوعیت کا ہے جو تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان پر عائد نہیں کیا جانا چاہئے۔

تنخواہ دار افراد نے طبی الاؤنس سے استثنیٰ کی حد 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی درخواست کی تاکہ صحت کی دیکھ بھال کے موجودہ اخراجات کی عکاسی کی جاسکے۔

تجاویز میں کہا گیا ہے کہ آمدورفت اور متعلقہ الاؤنسز متعارف کرائے جائیں جس میں آمدورفت اور دیگر ناگزیر ملازمت سے متعلقہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 15 فیصد قابلِ کٹوتی الاؤنس کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے ٹیکس کریڈٹس اور قابلِ کٹوتی الاؤنسز — جیسے کہ شیئرز، میوچل فنڈز، سکوک، لائف انشورنس اور ہیلتھ انشورنس میں سرمایہ کاری پر دستیاب سہولتیں — کو ختم کرنے سے تنخواہ دار افراد کی مالی سکت کو مزید نقصان پہنچا ہے۔

الائنس کے بیان کے مطابق فنانس ایکٹ 2024 کے تحت متعارف کرائی گئی ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے جس میں 10 فیصد اضافی سرچارج بھی شامل ہے جس سے تنخواہ دار افرادی قوت کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

بیان کے مطابق اس معاملے نے تنخواہ دار طبقے (افراد) کی ایک بڑی تعداد کو روزگار کے بہتر مواقع اور معیار زندگی کی تلاش میں بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایس ای سی پی (سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) کے زیر انتظام شیڈول بینکوں یا نان بینکنگ فنانس اداروں کی جانب سے قرضوں سے منافع پر کٹوتی الاؤنسز کے خاتمے سے مالی ریلیف کے دستیاب مواقع مزید کم ہوگئے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ اگرچہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے دوسرے شیڈول کے حصہ اول کے شق 139 کے تحت موجودہ 10 فیصد طبی الاؤنس اور اس کی ادائیگی مکمل طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ ہے لیکن یہ الاؤنس مہنگائی کے ساتھ نہیں بڑھ سکا۔

مزید برآں حکومت کو بتایا گیا ہے کہ اس طبقے (تنخواہ دار افراد) کو تنخواہ کمانے کے دوران ہونے والے اخراجات پر کسی قسم کی ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی جا رہی جبکہ دوسرے ٹیکس دہندگان کو یہ سہولت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ سالانہ 6 لاکھ روپے کی انکم ٹیکس سے استثنیٰ کی حد کئی سالوں سے بدلی نہیں، حالانکہ اس دوران مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے۔

پاکستان میں ماہانہ تنخواہوں اور الاؤنسز کا موازنہ علاقائی ممالک سے کرتے ہوئے الائنس نے بتایا کہ بھارت 7 لاکھ بھارتی روپے (پاکستانی کرنسی میں سالانہ 23 لاکھ 40 ہزار روپے کے مساوی) اور طبی اخراجات، ہوم لونز اور سرمایہ کاری پر کٹوتی الاؤنسز دے رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش نے تنخواہ دار ملازمین کے لیے 350,000 ٹکہ (یا تقریباً 890,000 روپے) تک آمدنی پر انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا ہے اور مختلف قابلِ کٹوتی الاؤنسز بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ ویتنام میں وی این ڈی 132,000,000 (یا تقریباً 1.57 ملین روپے) تک انکم ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہے، ساتھ ہی ذاتی اور زیرِ کفالت افراد کی مد میں کٹوتی الاؤنس کی سہولت بھی حاصل ہے۔ نیپال میں انفرادی طور پر این پی آر 500,000 (تقریباً 1.05 ملین روپے) اور شادی شدہ جوڑوں کے لیے این پی آر 600,000 (یا تقریباً 1.26 ملین روپے) تک انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کے علاوہ میڈیکل اخراجات، ریٹائرمنٹ سیونگز اور تعلیم کے اخراجات پر بھی قابلِ کٹوتی الاؤنسز موجود ہیں۔

خط کے مطابق موازنہ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام جس میں استثنیٰ کی حد نسبتا کم ہے اور بامعنی کٹوتی الاؤنس کے فقدان سے تنخواہ دار ٹیکس دہندگان پر غیر مساوی بوجھ پڑتا ہے جس سے نظام غیر متوازن بن جاتا ہے۔

اتحاد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور غیر دستاویزی شعبے کو باضابطہ ٹیکس فریم ورک میں لانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا کرنے سے نہ صرف ٹیکس دہندگان پر دباؤ کم ہوگا بلکہ پائیدار محصولات میں اضافے اور مساوی مالیاتی پالیسی کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔

Comments

200 حروف