موجودہ وقت (25 فروری تک) میں پاکستان کا مجموعی سرکاری قرض 75.3 ٹریلین روپے ہے جس میں 51 ٹریلین روپے کا اندرونی اور 24.3 ٹریلین روپے کا بیرونی قرض شامل ہے۔
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں تحریری جواب میں بتایا کہ یہ ”مجموعی سرکاری قرض“ وہ قرض ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر واجب الادا ہے اور یہ قرض آئی ایم ایف کو بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی قرض لینے کی ضرورت زیادہ تر مالیاتی خسارے کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ سرکاری قرض مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر مالیاتی خسارے میں اہم کردار سود کی لاگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مالی استحکام اور معاشی استحکام کی کوششوں کی وجہ سے توقع ہے کہ پورے مالی سال 25ء کے لئے سود کے اخراجات بجٹ کی رقم کے اندر ہوں گے جو متوقع ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جنوری 2025 ء تک سرکاری قرضوں کی مجموعی مالیت 74.4 ٹریلین روپے رہی جس میں 50.2 ٹریلین روپے اندرونی اور 24.2 ٹریلین روپے بیرونی قرضے شامل ہیں۔
فروری 2025 تک مرکزی حکومت کے ملکی قرضوں کی تفصیلات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طویل مدتی قرضہ 42.72 ٹریلین روپے، 39.43 ٹریلین روپے مستقل قرضہ، 38.554 ٹریلین روپے وفاقی حکومت کے بانڈز، 5.93 ٹریلین روپے حکومت پاکستان کے اجارہ سکوک، 32.558 ٹریلین روپے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز، 399.4 بلین روپے کے پرائس بانڈز، 2.914 ٹریلین روپے کے غیر فنڈڈ قرضے اور 2.835 ٹریلین روپے کی بچت اسکیمیں شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے قلیل مدتی صورتحال کے بارے میں بتایا کہ 8.23 ٹریلین روپے کا فلوٹنگ قرضہ موجود ہے جس میں 8.136 ٹریلین روپے کے مارکیٹ ٹریژری بلز اور 94.4 ارب روپے کے ایم ٹی بیز (مارکیٹ ٹریژری بلز) نقد کی دوبارہ فراہمی وغیرہ کے لیے شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے فروری 2025 تک مرکزی حکومت پر واجب الاد غیر ملکی قرضے کے بارے میں بتایا کہ اس میں 21.73 ٹریلین روپے کا طویل مدتی قرضہ، 288.6 ارب روپے کا قلیل مدتی قرض اورایم ایف و دیگر اداروں سے 2.3152 ٹریلین روپے کا قرض شامل ہے۔
ایک اور سوال کے تحریری جواب میں وزیر خزانہ اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ مالی سال 2024-25ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں اور اداروں کو مجموعی طور پر 237.310 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاور سیکٹر کو 218.313 ارب روپے، پاسکو کو 2.4 ارب روپے، گندم سبسڈی (جی بی) کے لیے 3.81 ارب روپے، ری فنانس سہولت کے لیے 6.9 ارب روپے اور ہاؤسنگ فنانسنگ کے لیے 5.79 ارب روپے فراہم کیے۔
مالی سال 2024-25 کے پہلے چھ ماہ میں مختلف حکومتی اداروں کو دی جانے والی گرانٹس اور قرضوں کی تفصیل کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے مجموعی طور پر 644.17 ارب روپے کی گرانٹس فراہم کیں جن میں سے 232.25 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، 22.59 ارب روپے ہائر ایجوکیشن کمیشن، 26.66 ارب روپے پاکستان ریلوے، 3.14 ارب روپے پاکستان بیت المال، اور 359.53 ارب روپے دیگر اداروں کو دیے گئے۔
وزیر خزانہ نے قرضوں کے بارے میں بتایا کہ حکومت نے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) کو 48.32 ارب روپے کا قرض، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو 7.48 ارب روپے کا قرض، جنکوز کو 5.5 ارب روپے کا قرض اور دیگر اداروں کو 0.21 ارب روپے کا قرضہ فراہم کیا ہے۔
ایک ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے کامرس ذوالفقار علی بھٹی نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم 5.7 ارب ڈالر تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت تجارت نے بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں پاکستانی مصنوعات پر 94 فیصد سے زیادہ ڈیوٹی فری مراعات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
بعد ازاں پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ سعد وسیم شیخ نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے اب تک خیبر پختونخوا حکومت کو سابقہ فاٹا کی ترقی کے لیے 600 ارب روپے سے زائد دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رقم خیبر پختونخوا کے این ایف سی ایوارڈ میں شامل حصے کے علاوہ صوبائی حکام کو فراہم کی گئی ہے۔
Comments