مارچ 2025 کے لیے وزارتِ خزانہ کی ماہانہ اپڈیٹ اور آئندہ حالات کی رپورٹ ایک ملی جلی تصویر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ میں چند شعبوں میں معاشی بحالی کو سراہا گیا ہے اور مہنگائی میں کمی کے باوجود استحکام کو اجاگر کیا گیا ہے۔
تاہم زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ معاشی ترقی 2 فیصد سے کم سطح پر برقرار ہے،جبکہ وہ تمام شعبے جو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں — جیسے بڑی صنعتیں، زراعت (مویشیوں کے علاوہ)، اور تعمیراتی شعبہ — خسارے کا شکار ہیں۔
ادائیگیوں کے توازن سے متعلق خدشات بدستور موجود ہیں؛ حالانکہ جاری کھاتہ بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔
وزارتِ خزانہ کی بنیادی ذمہ داری مالیاتی کھاتوں کا انتظام کرنا اور مؤثر مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے پائیدار ترقی کی راہ متعین کرنا ہے۔ تاہم، رپورٹ میں صرف مالی استحکام کے قلیل مدتی فوائد پر زور دیا گیا ہے، جب کہ باقاعدہ معیشت کو دبانے کے نتائج کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اگر منصفانہ بات کی جائے تو خسارے کے محاذ پر کچھ کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے — مالی سال 2025 کے جولائی تا جنوری کے عرصے میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 1.7 فیصد تک محدود رہا، جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 2.6 فیصد تھا۔ پرائمری سرپلس 1.9 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 1.8 فیصد) سے بڑھ کر 3.6 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 2.8 فیصد) ہوگیا ہے۔
یہ بہتری بنیادی طور پر دو عوامل کی وجہ سے ہے: پچھلے سال اسٹیٹ بینک کے زیادہ منافع اور باقاعدہ کاروباری اداروں و تنخواہ دار افراد پر ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ۔ دوسری جانب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ تاجر دوست اسکیم سے قابل ذکر ریونیو حاصل نہیں ہوا، اور زرعی یا رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے میں بھی کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی۔
اخراجات کے حوالے سے دیکھا جائے تو جاری اخراجات میں 17 فیصد اضافہ ہوا ۔ان میں مارک اپ ادائیگیوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ نان مارک اپ اخراجات کی شرح نمو 11 فیصد تک محدود رہی — جس کی بڑی وجہ سبسڈی پر کم خرچ ہونا ہے، جو کہ اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باعث ممکن ہوا۔
ایک جانب بہتر مالی کارکردگی سے قرضوں میں کمی اور جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری آ رہی ہے، جب کہ دوسری جانب رسمی صنعتی شعبے پر حد سے زائد بوجھ نہ صرف ترقی کو روک رہا ہے بلکہ درکار سرمایہ کاری کو بھی متاثر کررہا ہے۔
یہ ضرور کہنا چاہیے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کمی حقیقی ہے، جس کی ایک وجہ اسٹیٹ بینک کی گزشتہ سال اپنائی گئی سخت مالیاتی پالیسی اور دوسرا حد سے زیادہ ٹیکسز کے باعث طلب میں کمی ہے۔ عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں کمی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ خوراک اور توانائی کی قیمتیں تو کم رہیں، مگر اس کے نتیجے میں زرعی معیشت پر شدید دباؤ پیدا ہوا ہے۔
اہم فصلوں کی کارکردگی کم رہی اور کسانوں کی آمدنی میں کمی نے دیگر سامان اور خدمات کی مجموعی طلب کو متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، بنیادی مہنگائی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے،جس میں صحت، کپڑے اور جوتے اور تعلیم کے شعبوں میں میں دو ہندسوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) میں ملا جلا رجحان دیکھنے کو ملا ہے — 22 میں سے 11 شعبوں نے مثبت نمو ریکارڈ کی ہے، جن میں ٹیکسٹائل، ملبوسات (زیادہ تر برآمدات کے لیے)، تمباکو (ٹیکس کی بہتر نفاذ کی وجہ سے) وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، ملبوسات کے شعبے کے علاوہ تقریباً ہر شعبہ اپنے 2022 کے عروج سے نیچے ہے۔ مالی سال 25 کے 7 ماہ کے دوران ایل ایس ایم میں اب بھی 1.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
جدوجہد جاری ہے۔ معاشی ترقی میں بہتری کی توقع ہے — پہلی سہ ماہی میں 1.7 فیصد سے بڑھ کر پورے مالی سال کے دوران 2 سے 2.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ تاہم، یہ ابھی بھی آبادی کی شرح نمو سے پیچھے ہے۔
یہ معمولی بحالی بھی جاری کھاتے پر دوبارہ دباؤ ڈالنے کے خطرے کے ساتھ آتی ہے، جو ذخائر کے جمع ہونے میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے اور ممکنہ طور پر مہنگائی کو دوبارہ بھڑکا سکتی ہے۔ لہٰذا، مجموعی طور پر، رپورٹ کا جائزہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور منظرنامہ چیلنجنگ ہی رہتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments