گلگت بلتستان میں واقع پاکستان کے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کے دامن میں، پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے کسانوں نے ایک انوکھا حل نکالا ہے، انہوں نے مصنوعی برفانی مینار بنالئے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم سرما کی شدت میں کمی اور برف باری میں کمی نے ان وادیوں کو متاثر کیا ہے جو پہلے برف پگھلنے سے سیراب ہوتی تھیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اسکردو وادی کے کسانوں نے یوٹیوب سے مدد لی، جہاں انہیں لداخ کے ماہر ماحولیات سونم وانگچک کی بنائی گئی ویڈیوز سے ”آئس اسٹوپاز“ بنانے کا طریقہ ملا۔

اس تکنیک کے تحت پانی کو سردیوں میں پائپ کے ذریعے لایا جاتا ہے اور فضا میں اسپرے کیا جاتا ہے، جہاں وہ منفی درجہ حرارت میں منجمد ہو کر مخروطی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین کے مطابق یہ آئس اسٹوپاز بہار میں آہستہ آہستہ پگھلتے ہیں اور فصلوں کے لیے پانی مہیا کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز موجود ہیں، جو قطبی علاقوں کے سوا دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، لیکن اب خطے میں برف باری کم ہو رہی ہے۔

پہلا آئس اسٹوپا 2018 میں بنایا گیا اور اب 20 سے زائد دیہات میں یہ عمل جاری ہے۔

رپورٹس کے مطابق اب تک 16,000 افراد کو بغیر کسی ذخیرے یا ٹینک کے پانی کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔

کسان محمد رضا کے مطابق ان کے گاؤں حسین آباد میں اس سال آٹھ آئس اسٹوپاز بنائے گئے، جنہوں نے تقریباً دو کروڑ لیٹر پانی محفوظ کیا۔

اس تکنیک سے اب کسان دو یا تین بار فصل کاشت کر سکتے ہیں، جو پہلے صرف ایک بار ممکن تھا۔

یہ ایک امید کی کرن ہے کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی خطرہ ہے، لیکن مقامی سطح پر اختراعی اقدامات اس کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

Comments

200 حروف