لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ تعزیراتِ پاکستان (پی پی سی) کی دفعات 489-ایف اور 506-بی سمیت تمام مخصوص جرائم بغیر عدالت کی اجازت کے کسی بھی مرحلے پر، ٹرائل یا اپیل کے دوران قابل صلح ہیں۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ قانون سازوں نے فوجداری ضابطہ (سی آر پی سی) کی دفعہ 345(1) میں واضح طور پر یہ گنجائش رکھی ہے کہ مخصوص جرائم میں عدالت کی اجازت کے بغیر بھی صلح کی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ جب عدالت معاملے کو دیکھ رہی ہو۔
یہ فیصلہ محمد سجاد کی ضمانت کی درخواست پر سنایا گیا، جس نے 2,45,000 روپے کا چیک شکایت کنندہ کو دھوکہ دہی سے دیا تھا، جو بعد میں باؤنس ہو گیا۔ عدالت نے فریقین کے درمیان صلح کے پیش نظر درخواست کو منظور کرتے ہوئے عبوری ضمانت کو مستقل کر دیا۔
عدالت نے ہدایت دی کہ مجسٹریٹ صلح کی حقیقت جانچنے کے لیے شکایت کنندہ کو طلب کر سکتا ہے اور مطمئن ہونے کے بعد مقدمہ خارج کرنے کا مناسب حکم دے سکتا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر، اگر دورانِ تفتیش کسی مقدمے کو بدنیتی پر مبنی، قانونی یا فنی غلطی کا نتیجہ، یا غیر قابلِ دست اندازی پولیس پائے، تو وہ مقدمے کی منسوخی کی سفارش کر سکتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ دفعہ 489-ایف اور 506-بی کے علاوہ تمام مخصوص جرائم قابل ضمانت ہیں اور پولیس ان میں ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کی مجاز ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایسے جرائم میں صلح کی صورت میں عدالت کا کردار صرف معاہدے کو نافذ کرنا اور ملزم کی بریت کو ریکارڈ کرنا ہوتا ہے۔
عدالت نے ہدایت دی کہ پولیس تفتیش کے دوران ان مقدمات میں صرف صلح سے متعلق شواہد اکٹھے کرے اور مقدمے کی منسوخی کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرے۔
عدالت نے فیصلے کی ایک نقل پنجاب بھر کے سیشن ججوں، انسپکٹر جنرل پولیس اور پراسیکیوٹر جنرل کو بھیجنے کی ہدایت دی تاکہ اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments