ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کا کہنا ہے کہ حکومت اور ریگولیٹری حکام کو ڈیجیٹل مالیاتی خدمات کے فریم ورک کے قیام کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے جو لاگت کی رکاوٹوں کو دور کرے، اعتماد کو فروغ دے، اپنانے کی حوصلہ افزائی کرے اور صارفین اور کاروباری اداروں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ یہ بات ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی ایک رپورٹ ”کیش سے ڈیجیٹل کی طرف: پاکستان میں مالیاتی شمولیت کا فروغ“ میں کہی ہے۔

بینک نے سفارش کی ہے کہ حکام کو تاجروں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کو اپنانے کی ترغیب دینی چاہیے، جس کے لیے مستحکم، ڈیجیٹل طور پر دستاویزی مالیاتی کارکردگی کی بنیاد پر ورکنگ کیپیٹل قرضے فراہم کیے جائیں۔

ترقی پذیر ایشیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد بینکاری خدمات سے محروم ہیں، جن میں پاکستان کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ملک میں صرف 21 فیصد بالغ افراد کو بینک اکاؤنٹ یا موبائل منی سروس تک رسائی حاصل ہے، جبکہ کئی لوگ مالیاتی لین دین کے لیے غیر رسمی نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں۔

مالیاتی شمولیت کی کمی خواتین کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے میں بینکاری خدمات تک رسائی حاصل کرنے میں نصف مواقع رکھتی ہیں۔ ڈیجیٹل فنانس ایک بڑا موقع فراہم کرتا ہے، جو تیز تر، محفوظ اور زیادہ قابل رسائی لین دین کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں بینکاری خدمات میں گزشتہ 15 سالوں کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ مالیاتی اداروں کے اکاؤنٹس میں مالی سال 2019 سے مالی سال 2024 کے دوران تقریباً 127 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان کی 241 ملین آبادی میں سے 60 فیصد بالغ افراد پر مشتمل ہیں، لیکن اب بھی دو کروڑ سے زیادہ بالغ افراد رسمی مالیاتی خدمات سے محروم ہیں۔

ملک میں موبائل اور آن لائن لین دین میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2020 کے اوائل میں یہ لین دین 17 فیصد تھا جو ستمبر 2024 تک 75 فیصد تک پہنچ گیا۔ 2021 میں متعارف کرایا گیا ”راست“ سسٹم ملک کا پہلا فوری ادائیگی کا نظام ہے، جس نے شخصی اور کاروباری مالیاتی لین دین کو آسان اور مفت بنا دیا ہے۔

2023 میں راست کے ذریعے 102 ملین شخصی لین دین مکمل کیے گئے، جبکہ 2022 میں یہ تعداد صرف 7.9 ملین تھی۔ ستمبر 2024 تک روزانہ تین ملین لین دین مکمل ہو رہے تھے، جبکہ 39.5 ملین افراد نے راست آئی ڈیز رجسٹر کرا رکھی تھیں۔

پاکستان کا ریٹیل سیکٹر، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 18 فیصد ہے، ڈیجیٹل فنانس کے فروغ کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ شعبہ زیادہ تر ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور محض 4 فیصد ٹیکس محصولات میں حصہ ڈال رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دباؤ کے باعث حکومت نے ریٹیل سیکٹر میں ٹیکس اصلاحات کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جس میں پوائنٹ آف سیل رجسٹرز اور ”تاجر دوست اسکیم“ جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل مالیاتی خدمات کی ترقی جاری ہے لیکن مکمل اپنانا ابھی باقی ہے۔ پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دیہی اور غیر بینک شدہ علاقوں تک اس کی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل ٹیکس ادائیگی، پنشن اور دیگر عوامی خدمات میں ڈیجیٹل طریقے اپنانے کی مثال قائم کرے۔ مزید برآں، ڈیجیٹل آئی ڈی سسٹمز اکاؤنٹ تک رسائی کو مزید آسان بنا سکتے ہیں۔ ڈیٹا پرائیویسی، سائبر سیکیورٹی، اور صارفین کے تحفظ پر مبنی پالیسیاں اعتماد کے فروغ کے لیے اولین ترجیح ہونی چاہئیں۔

مالیاتی خدمات میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ چونکہ ملک کی نصف سے زائد آبادی اب بھی رسمی مالیاتی نظام سے باہر ہے، اس لیے اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہدفی اقدامات ضروری ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف