آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے پاور سیکٹر ریگولیٹر نیپرا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنوری 2025 کے منفی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کا مکمل ریلیف کسی بھی کٹوتی کے بغیر کراچی کے صارفین کو منتقل کرے۔

اپٹما کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے نیپرا کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ کے-الیکٹرک (کے ای) کی جانب سے جنوری 2025 کے عبوری ایف سی اے کی درخواست پر عوامی سماعت کے نوٹس کے حوالے سے کچھ اہم نکات ریگولیٹری اتھارٹی کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا کا ایف سی اے کے حوالے سے کے-الیکٹرک سے برتاؤ اس کے غیر جانبدار ہونے، ریگولیٹری ترجیحات اور صارفین کے تحفظ کے عزم پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ نیپرا کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کے-الیکٹرک کے مالی مفادات کو کراچی کے صارفین اور صنعتوں پر ترجیح دے رہا ہے۔

اپٹما نے سوال اٹھایا کہ نیپرا غیر مصدقہ اخراجات کو منفی ایف سی اے سے کیوں منہا کر رہا ہے جبکہ صارفین کے تصدیق شدہ دعوؤں کو نظرانداز کر رہا ہے؟ کے-الیکٹرک نے جولائی 2023 سے جنوری 2025 تک کے جزوی لوڈ، اوپن سائیکل، ڈگریڈیشن کروز اور اسٹارٹ اپ اخراجات کی مد میں 13.5 ارب روپے کا دعویٰ کیا ہے اور اس میں سے 5.4 ارب روپے نومبر 2024 کے منفی ایف سی اے سے منہا کرنے کی درخواست کی ہے، لیکن یہ اخراجات نہ صرف غیر مصدقہ ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ناقابل تصدیق بھی ہیں۔

انہوں نے نیپرا سے تین اہم سوالات کیے پہلا نیپرا کس قانونی یا ریگولیٹری بنیاد پر کے-الیکٹرک کو غیر مصدقہ اخراجات کی وصولی کی اجازت دے رہا ہے، جبکہ کراچی کے صارفین کو ان کا جائز ایف سی اے ریلیف دینے سے انکار کر رہا ہے؟ دوسرا نیپرا صارفین کے پیسے کو کاٹنے کا جواز کیسے فراہم کر سکتا ہے جب تک کے-الیکٹرک کے اخراجات کی تصدیق نہیں ہو جاتی؟ اور تیسرا نیپرا کا مینڈیٹ سیکشن 7(6) کے تحت صارفین اور صنعتوں کے مفادات کا تحفظ ہے، پھر وہ کے-الیکٹرک کے مالی دعوئوں کو صارفین کے ریلیف پر کیوں ترجیح دے رہا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ نیپرا اپنی ہی ریگولیٹری پالیسی کے خلاف کام کر رہا ہے، جو کہتی ہے کہ ایف سی اے کی کوئی بھی ایڈجسٹمنٹ آڈٹ شدہ اور تصدیق شدہ اعداد و شمار پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کے باوجود، نیپرا بغیر آڈٹ اور تصدیق کے کٹوتیوں کی منظوری دے رہا ہے، جو کہ شفافیت کے اصولوں کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا نے کے-الیکٹرک کو اس کے اخراجات وصول کرنے کی اجازت دی، لیکن 33 ارب روپے کی کووڈ انکریمنٹل سبسڈی جو گزشتہ تین سال سے زیر التوا ہے، وہ تاحال جاری نہیں کی گئی۔ کے-الیکٹرک نیپرا ٹریبیونل میں یہ کیس ہار چکا ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لے کر سبسڈی کی مزید تاخیر کا سبب بن رہا ہے۔ اس دوران کراچی کی صنعتوں کو 300 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اپٹما کی عہدیدار نے نیپرا سے سوال کیا کہ اگر نیپرا ایف سی اے کی کٹوتیوں کی بغیر تصدیق کے منظوری دے سکتا ہے تو وہ 33 ارب روپے کی کووڈ سبسڈی کیوں جاری نہیں کر سکتا، جو پہلے سے تصدیق شدہ ہے؟ ، اگر نیپرا کے-الیکٹرک کی مالی استحکام کے لیے صارفین کے فائدے کاٹ سکتا ہے، تو وہ کم از کم 30 ارب روپے کی سبسڈی کیوں نہیں جاری کر سکتا؟ اور کیا نیپرا ایک غیر جانبدار ریگولیٹر ہے یا کے-الیکٹرک کے مالی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ نیپرا کے فیصلے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو رہی ہے، جہاں صارفین کے ریلیف کو بے بنیاد ”کاسٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے تحت روک دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے مالیاتی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے اور صارفین و کاروباری طبقے پر مزید بوجھ پڑتا ہے۔

اپٹما کے سیکریٹری جنرل نے نیپرا اور پاور ڈویژن سے مطالبہ کیا کہ وہ ایف سی اے کے تحت کے-الیکٹرک کو دیے جانے والے اخراجات کی ایک متعین حد ملٹی ایئر ٹیرف میں شامل کریں۔ انہوں نے پوچھا کہ نیپرا نے ملٹی ایئر ٹیرف میں اوپن سائیکل اور اسٹارٹ اپ فیول کاسٹ کی واضح حد کیوں مقرر نہیں کی؟ اگر نیپرا کے-الیکٹرک کے لیے ایف سی اے میں من مانی کٹوتیوں کی منظوری دے سکتا ہے تو وہ ملٹی ایئر ٹیرف میں شفاف رہنما اصول کیوں وضع نہیں کر سکتا؟ اور کیا کے-الیکٹرک کی نااہلیوں کا بوجھ صارفین پر ڈالنا جائز ہے؟

انہوں نے نیپرا سے مطالبہ کیا کہ جنوری 2025 کے ایف سی اے کا مکمل منفی ریلیف کسی کٹوتی کے بغیر صارفین کو منتقل کرے۔ نیپرا کے-الیکٹرک کے غیر مصدقہ دعوئوں کو صارفین کے جائز حقوق پر ترجیح نہ دے۔ اور3. 33 ارب روپے کی کووڈ سبسڈی میں سے کم از کم 30 ارب روپے فوری طور پر کراچی کے صارفین کو جاری کرے۔

اپٹما نے خبردار کیا کہ اگر نیپرا نے فوری اصلاحی اقدامات نہ کیے تو یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ وہ ایک غیر جانبدار ریگولیٹر کے بجائے کے-الیکٹرک کے مفادات کا محافظ بن چکا ہے۔ کراچی کے صارفین اور صنعتوں کو ایک شفاف، منصفانہ اور جوابدہ ریگولیٹری نظام کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسا جو کے-الیکٹرک کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف