پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تازہ ترین گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان کو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دیا گیا ہے۔ یہ درجہ بندی ایک سنگین حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ بنوں میں ہونے والا حملہ، جس میں کم از کم اٹھارہ افراد بشمول پانچ سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، اس بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کا دوبارہ فعال ہونا اس بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو سرحد پار محفوظ ٹھکانے میسر آ گئے ہیں، جہاں سے وہ دوبارہ منظم ہو کر پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔

افغان طالبان کی یقین دہانیاں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، بے بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔ طالبان حکومت نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز کیا بلکہ ان کے دوبارہ طاقت حاصل کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

پاکستان کی سفارتی کوششیں، چاہے وہ افغان حکومت سے مذاکرات ہوں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے، ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ خیال کہ ٹی ٹی پی کو سیاسی عمل میں شامل کیا جا سکتا ہے، پہلے ہی مسترد ہو چکا ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں، لیکن حملوں کی شدت اور تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ مزید موثر اور جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

یہ حملے محض اتفاقیہ نہیں رہے بلکہ ریاستی خودمختاری کو چیلنج کرنے کی منظم کوشش بن چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کے اہم مراکز بن چکے ہیں، جہاں سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ صورتحال دو ہزار دس کی دہائی کے اوائل کی یاد دلاتی ہے، جب پاکستان ایک بھرپور دہشت گردی مخالف جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اب دشمن سرحد پار سے حملے کر رہا ہے اور افغانستان کو اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

اب مزید نیم دلانہ اقدامات کی گنجائش نہیں۔ پاکستان کو ایک جارحانہ انسداد دہشت گردی حکمت عملی اپنانی ہوگی، جس میں فوجی آپریشنز، خفیہ معلومات پر مبنی کارروائیاں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ شامل ہو۔

ریاست کو افغان طالبان پر سفارتی اور اسٹریٹجک دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اگر کابل حکومت ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہتی ہے، تو پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے تمام ممکنہ آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔

محض فوجی کارروائی کافی نہیں۔ اندرون ملک سیکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔ یہ حقیقت کہ دہشت گرد اب بھی سیکیورٹی حصار توڑ کر بڑے پیمانے پر حملے کر رہے ہیں، انٹیلی جنس ناکامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان، جسے کبھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم قرار دیا جاتا تھا، محض کاغذی کارروائی بن چکا ہے۔ اسے دوبارہ فعال کرنا اور مکمل طور پر نافذ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، خاص طور پر دہشت گرد نیٹ ورکس ختم کرنے، انتہا پسندوں کی مالی معاونت روکنے اور شدت پسندی کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے حوالے سے۔

دہشت گردی کے بے قابو ہونے کے اقتصادی نتائج بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ کار، خواہ وہ مقامی ہو یا غیر ملکی، غیر مستحکم اور پرتشدد ماحول میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ پاکستان پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور دہشت گردی کی لہر صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

سیاسی عدم استحکام بھی سیکیورٹی کو کمزور کر رہا ہے کیونکہ قومی سلامتی کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور ریاستی اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں ناپید ہیں۔ کمزور حکومتیں ہمیشہ دہشت گردوں کا آسان ہدف بنتی ہیں۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں تک جنگ لڑی ہے، لیکن دہشت گردوں کی واپسی ثابت کرتی ہے کہ خطرے کو معمولی سمجھنا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو بیانیہ اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا، دفاعی حکمت عملی ترک کر کے جارحانہ رویہ اپنانا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی۔

اگر افغانستان دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو پاکستان کو واضح کر دینا چاہیے کہ وہ اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، چاہے کابل اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔

پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ مزید تاخیر، ناکام مذاکرات اور سیاسی تذبذب کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ جنگ مکمل، بھرپور اور آخری حد تک جیتنی ہوگی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف