سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کو آگاہ کیا گیا کہ ایم ایل-1 ریلوے منصوبہ، جس کی لاگت 1.1 ارب ڈالر ہے، زیادہ تر چین کے قرض سے مکمل ہوگا۔ سی پیک کے تحت چین اس منصوبے کے 85 فیصد اخراجات برداشت کرے گا۔
کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر قرۃ العین مری کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس کا ایک اہم حصہ ایم ایل ون ریلوے منصوبے کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کے لئے وقف کیا گیا تھا۔ کمیٹی نے آبی وسائل کے انتظام، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور پاکستان کی ترقی کے لئے اہم جاری اقدامات پر بھی غور کیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1.1 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ زیادہ تر چین کے قرض سے مکمل ہوگا، جس کے تحت سی پیک کے ذریعے چین 85 فیصد فنڈز فراہم کرے گا جبکہ باقی اخراجات پاکستان برداشت کرے گا۔ مزید پیشرفت کے لیے وزارت چین کی تکنیکی ٹیم کے آنے کی منتظر ہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر مری نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے متنازعہ کالا باغ ڈیم کو مجوزہ منصوبوں میں شامل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
کمیٹی کی چیئرپرسن نے نشاندہی کی کہ ”تین صوبائی اسمبلیاں پہلے ہی اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہیں، لہٰذا اسے پلاننگ کمیشن کی پریزنٹیشنز اور تجاویز سے نکال دینا چاہیے۔“ اجلاس میں گومل زام اور دراوت ڈیمز کی پیشرفت پر بھی بات ہوئی، جو پانی کے ذخیرے اور زرعی ترقی کے لیے اہم ہیں۔
کمیٹی کو بھاشا ڈیم کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی جہاں ارکان نے اس کے 2035 تک مکمل ہونے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، جو ایک اہم توانائی منصوبہ ہے، 2027 تک مکمل ہونے کی توقع ہے اور اس کی مالی معاونت عالمی بینک فراہم کر رہا ہے۔
سیکرٹری آبی وسائل نے بتایا کہ گومل زام ڈیم، جو 2014 میں مکمل ہو کر صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا تھا، انفرااسٹرکچر کی عدم ترقی کے باعث مسائل کا شکار رہا۔
اجلاس کا آغاز میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ سینیٹر مولانا عطاالرحمان نے دہشت گرد حملے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعا کی۔
اجلاس میں حکام نے خبردار کیا کہ آبادی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پانی کی دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان اس وقت ناقص انتظام، زیرزمین پانی کی تیزی سے کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ”اُڑان پاکستان“ اور ”5Es فریم ورک“ کے تحت اہم اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے، قومی آبی وسائل اور سیلابی نظام کو بہتر بنایا جا سکے، اور پانی کے تحفظ کی کوششوں کو فروغ دیا جا سکے۔
کمیٹی نے کراچی کو صاف پانی کی فراہمی کے بڑے منصوبے پر بھی غور کیا۔ بتایا گیا کہ یہ منصوبہ جون 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے اور اس کا 57.8 فیصد کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔ مزید بتایا گیا کہ عملدرآمد میں درپیش چیلنجز اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کے باوجود، سیکرٹری آبی وسائل نے وفاقی حکومت کی جانب سے منصوبے کی پیشرفت پر کمیٹی کو یقین دہانی کرائی۔
تاہم چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر قرۃ العین مری نے چینی تکنیکی وفد کی عدم موجودگی کی وجہ سے تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا جس کی وجہ سے پیش رفت رک گئی ہے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن نے وزارت کو تجویز دی کہ اگر مزید تاخیر متوقع ہے تو منصوبے کے لئے مالی وسائل کے متبادل ذرائع بھی تلاش کیے جائیں۔
تاہم، کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر قرۃ العین مری نے چینی تکنیکی وفد کی عدم موجودگی کے باعث تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا، جس سے منصوبے کی پیشرفت رک گئی ہے۔ انہوں نے وزارت کو تجویز دی کہ اگر مزید تاخیر کا خدشہ ہو تو منصوبے کے لیے متبادل مالی وسائل بھی تلاش کیے جائیں۔
تاہم کمیٹی نے اہم منصوبوں کی بروقت تکمیل کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی آئندہ اجلاسوں میں ان منصوبوں کی نگرانی جاری رکھے گی اور اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرے گی کہ یہ قومی اقدامات تکمیل کی راہ پر گامزن رہیں۔
اجلاس میں سینیٹرز جام سیف اللہ خان، شہادت اعوان، ذیشان خانزادہ، ڈاکٹر افنان اللہ خان، سینیٹر عطاء الرحمان اور وزارتوں کے افسران نے شرکت کی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments