مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے فیصلے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں منگل کو ایک اور اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 178 پوائنٹس سے زائد کی کمی کے ساتھ بند ہوا۔

کاروباری سیشن کے دوران 100 انڈیکس 113,610.31 پوائنٹس کی کم ترین سطح تک گر گیا۔

تاہم مارکیٹ میں دیر سے خریداری کے دوران تیزی بحال ہوئی جس کی وجہ سے 100 انڈیکس انٹرا ڈے کی بلند ترین سطح 114,486.19 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔

کاروبار کے اختتام پر 100 انڈیکس 178.69 پوائنٹس یا 0.16 فیصد کی کمی سے 114,177.65 پوائنٹس پر بند ہوا۔

آٹوموبائل اسمبلرز، سیمنٹ، تیل و گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں، او ایم سیز، بجلی کی پیداوار اور ریفائنری سمیت اہم شعبوں میں فروخت کا دباؤ دیکھا گیا۔ اے آر ایل، حبکو، پی ایس او، ایس ایس جی سی، ایم اے آر آئی، او جی ڈی سی اور پی پی ایل کے حصص میں مندی کا رجحان رہا۔

توقعات کے برعکس اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے جون 2024 کے بعد پہلی بار اپنی پالیسی ریٹ کو برقرار رکھا ۔ مرکزی بینک کے مطابق اس فیصلے کی بنیادی وجوہات خوراک کی قیمتوں میں عدم استحکام اور عالمی سطح پر تحفظاتی پالیسیوں کے خطرات ہیں۔

زیادہ تر مارکیٹ ماہرین توقع کر رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی بڑھنے کی شرح میں مسلسل کمی کے پیش نظر مانیٹری پالیسی میں نرمی جاری رکھے گا اور مسلسل ساتویں بار شرح سود میں کمی کرے گا۔

ایک اور اہم پیش رفت میں پیر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن اور پاکستانی حکام کے درمیان زرعی آمدنی پر ٹیکس سے متعلق مذاکرات ہوئے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف مشن نے صوبائی حکومتوں، وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام کے ساتھ زرعی انکم ٹیکس پر خصوصی اجلاس منعقد کیا۔

یاد رہے کہ پیر کو بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 42 پوائنٹس کی کمی سے 114,356.34 پر بند ہوا تھا۔

عالمی سطح پر منگل کو ایشیائی اسٹاک مارکیٹس نے وال اسٹریٹ کے رجحان کو اپناتے ہوئے نمایاں کمی دیکھی، کیونکہ وسیع پیمانے پر تجارتی جنگ کے خدشات نے امریکی معیشت کی ترقی پر منفی اثرات اور ممکنہ کساد بازاری کے خطرے کو بڑھا دیا۔ اس صورتحال میں، غیر یقینی کے شکار سرمایہ کاروں نے محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر جاپانی ین کا رخ کیا۔

سرمایہ کاروں کے معاشی سست روی کے خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ”عبوری دور“ کا ذکر کیا، مگر یہ پیش گوئی کرنے سے گریز کیا کہ آیا ان کے محصولات (ٹیرف) سے امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگی یا نہیں۔

ٹرمپ کے ان بیانات اور معاشی خدشات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید کمزور کر دیا، جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹس گراوٹ کا شکار ہوئیں، جبکہ امریکی ڈالر اور ٹریژری ییلڈز پر بھی دباؤ بڑھ گیا۔

پیر کو ایس اینڈ پی 500 میں 2.7 فیصد کی گراوٹ آئی، جو اس سال کی سب سے بڑی ایک دن کی گراوٹ ہے، جبکہ نیسڈیک میں 4.0 فیصد کی گراوٹ آئی ہے، جو ستمبر 2022 کے بعد سے ایک دن میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ منگل کو ایشیائی اوقات میں ایس اینڈ پی اور نیسڈیک فیوچرز میں ایک فیصد کمی واقع ہوئی۔

ایشیا میں اسٹاک مارکیٹس شدید مندی کا شکار رہیں جہاں جاپان کا نکئی اور تائیوان کے اسٹاکس تقریباً 3 فیصد گر گئے، جو ستمبر کے بعد اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے۔ اسی طرح، جاپان کے علاوہ ایشیا پیسیفک کے شیئرز کا ایم ایس سی آئی انڈیکس بھی 1فیصد سے زائد نیچے آگیا۔

دریں اثناء انٹر بینک مارکیٹ میں منگل کے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 0.04 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اختتام پر ڈالر 279.95 روپے پر بند ہوا جو ڈالر کے مقابلے میں 12 پیسے کا اضافہ ہے۔

آل شیئر انڈیکس کا حجم گزشتہ بند کے 324.65 ملین سے کم ہو کر 318.52 ملین رہ گیا۔

تاہم حصص کی قیمت گزشتہ سیشن کے 20.70 ارب روپے سے بڑھ کر 22.88 ارب روپے ہوگئی۔

سوئی سدرن گیس 26.38 ملین شیئرز کے ساتھ سب سے آگے رہی، اس کے بعد بی او پنجاب 22.12 ملین شیئرز کے دوسرے اور ورلڈ کال ٹیلی کام 18.12 ملین شیئرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

منگل کو 438 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا جن میں سے 132 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ، 233 میں کمی جبکہ 73 میں استحکام رہا۔

 ۔
۔

Comments

200 حروف