ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کی جانب سے 2023 کی ڈیجیٹل آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری میں ایک حیرت انگیز اور انتہائی پریشان کن تخمینہ سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ 2023 میں قومی سطح پر بیروزگاری کی مجموعی شرح 22 فیصد تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی گزشتہ سال کے برعکس بے روزگاری کی شرح کے تخمینے سے کافی زیادہ ہے۔
آخری لیبر فورس سروے پی بی ایس نے 2020-21 میں کیا تھا۔ اس وقت قومی سطح پر بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد 2020-21 میں 4.5 ملین سے بڑھ کر 2023 میں 18.7 ملین ہوگئی ہے۔ یہ تین سالوں میں 315 فیصد کے ناقابل یقین اضافے کو بیان کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ 2023 کی مردم شماری میں کام کرنے والے اور بے روزگار مزدوروں کی تعداد کی نشاندہی کی جائے اور ان کا موازنہ 2020-21 کے آخری لیبر فورس سروے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار سے کیا جائے۔ یہ موازنہ ذیل میں جدول 1 میں پیش کیا گیا ہے۔
لیبر فورس میں 2020-21 سے 2023 تک سالانہ 6.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ ملازمت پیشہ افراد کی تعداد میں 1.1 ملین کی کمی آئی ہے۔ نتیجتاً بے روزگار افراد کی تعداد میں 14.2 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ 2023 میں اعداد و شمار سیلاب کے مسلسل منفی اثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس طرح روزگار کی صورتحال کے بارے میں ملک کے دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان ایک تقسیم ذیل میں دی گئی ہے۔
جدول 2 واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے دیہی معیشت پر سیلاب کے بڑے منفی اثرات کی تصدیق ہوتی ہے۔
مردم شماری میں ایک شخص کو ”ملازمت یافتہ“ اس صورت میں قرار دیا جاتا ہے اگر وہ پچھلے 12 مہینوں کے دوران کسی تنخواہ، منافع یا بغیر تنخواہ کی بنیاد پر معمول کے مطابق کام کرتا رہا ہو۔ یہ تعریف لیبر فورس سروے کی تعریف سے بالکل مختلف ہے، جس میں ”ملازمت یافتہ“ شخص کو ”کام پر موجود“ سمجھا جاتا ہے، یعنی وہ شخص جس نے سروے کے حوالہ ہفتے (سروے سے ایک ہفتہ پہلے) میں کم از کم ایک گھنٹہ کام کیا ہو۔ واضح طور پر مردم شماری نے ملازمت کی زیادہ سخت اور کڑی تعریف اپنائی ہے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ 2023 میں بے روزگاری کی زیادہ شرح کا ایک بڑا سبب یہ سخت تعریف ہو۔
مردم شماری کے مطابق 2023 میں بے روزگاری کی شرح دو چھوٹے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ رہی۔ 21-2020 میں شرح کے مقابلے میں یہ اضافہ بلوچستان اور سندھ میں سب سے زیادہ ہے۔
مردم شماری لیبر مارکیٹ میں صنفی امتیاز کا ثبوت بھی دیتی ہے۔ نہ صرف خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح بہت کم ہے بلکہ بے روزگاری کی شرح 39 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کو بھی مردم شماری میں اجاگر کیا گیا ہے۔ 2023 میں ان کی بے روزگاری کی شرح 29 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ 16 ملین سے زیادہ ایسے تھے جو نہ تو لیبر فورس میں تھے اور نہ ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ نتیجتا 2023 میں ’بے کار نوجوانوں‘ کی تعداد 22.7 ملین کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں انسانی وسائل کا بہت بڑا ضیاع ہو رہا ہے۔
2023 کی مردم شماری کے انتہائی منفی نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ پی بی ایس مناسب وضاحت کرے کہ بے روزگاری کی شرح 2020-21 میں 6.3 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر کیوں پہنچ گئی ہے۔
Comments