گزشتہ ہفتے اس اخبار نے رپورٹ کیا کہ پاکستان کی مشہور اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کویت کو زندہ بھیڑ بکریوں کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے مسترد کر دیا۔ اگر یہ حکومت کی ناکامی کا مذاق نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
ایس آئی ایف سی کو بظاہر پاکستان کی دیرینہ فیصلہ سازی کی صلاحیت کے فقدان کا حل قرار دیا گیا تھا، ایک ایسا ”ون ونڈو“ نظام جو سرخ فیتے کی رکاوٹیں ختم کرکے سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گا۔ لیکن اگر ایس آئی ایف سی کی تجاویز کو ای سی سی کے اسی چکر میں واپس پھینک دیا جانا ہے جو دہائیوں سے فیصلوں کا گلا گھونٹ رہا ہے، تو پھر اس ادارے کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ مزید برآں، ای سی سی کے اپنے فیصلے آخرکار وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے جاتے ہیں، جو زیادہ سے زیادہ صرف ان پر مہر ثبت کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ عمل درآمد کے بے شمار مراحل، کمیٹیاں، ٹاسک فورسز، اور بے نتیجہ مباحثے—پاکستان کی طرزِ حکمرانی ایک پیاز کی مانند ہے: بیوروکریسی کی تہیں چھیلتے جاؤ اور آخر میں… کچھ بھی نہیں بچتا۔
اور ان تمام بیوروکریٹس اور وزراء کی ہزاروں گھنٹوں کی محنت کس بحث پر ہو رہی ہے؟ ایک ایسی صنعت پر جس کی زیادہ سے زیادہ برآمدی صلاحیت شاید 100 ملین ڈالر سالانہ ہو۔ ایک ایسا ملک جو تاریخی مہنگائی، گرتے ہوئے حقیقی اجرتی نرخ، ریکارڈ بلند توانائی لاگت، جمود کا شکار صنعتی پیداوار، سکڑتی ہوئی برآمدات، اور ایک آئی ایم ایف وفد کے مستقل موجود رہنے جیسے سنگین بحرانوں میں ڈوبا ہوا ہے، وہ اپنی قیمتی توانائی کا ضیاع اس بحث پر کر رہا ہے کہ بکریاں اور بھیڑیں برآمد کی جائیں یا نہیں۔ دوسری طرف، ریاست کو ایک ساتھ کئی محاذوں پر شورشوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے، ٹوٹے ہوئے سیاسی نظام کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور چین اور امریکا کے درمیان بکھرتی ہوئی عالمی صورتحال میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں ہم اب بھی مویشیوں پر بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بغداد 1258ء ہے، منگول دروازے پر کھڑے ہیں اور علما ابھی تک یہ طے کر رہے ہیں کہ کوا حلال ہے یا حرام۔
اور اصل مسئلہ کیا ہے؟ زندہ جانوروں کی برآمدات پر پابندی کو ہمیشہ ”خوراک کی حفاظت“ کا ایک اقدام قرار دیا گیا ہے تاکہ عام آدمی کے لیے مٹن سستا رہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مٹن کبھی بھی عام آدمی کی خوراک نہیں رہا۔ یہ ایک ”اسٹیٹس پروٹین“ ہے، ایک لگژری۔ زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے روزمرہ پروٹین دالوں، چکن، انڈوں اور دودھ سے حاصل ہوتا ہے—نہ کہ بھنے ہوئے بکرے کے گوشت یا کڑاہی گوشت سے۔ مٹن عید، شادیوں اور کبھی کبھار درمیانے اور اعلیٰ طبقے کی خصوصی دعوتوں میں کھایا جاتا ہے۔ اس کی قیمت کو ”مستحکم“ رکھنا دراصل اشرافیہ اور شہری امرا کو تحفظ دیتا ہے، نہ کہ محنت کش غریب عوام کو فائدنہ پہنچنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں بھیڑ بکریوں کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود مٹن کی یہ بہتات عام گھروں میں اس کی سستی اور وسیع رسائی میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ اگر 2013ء میں زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی کا مقصد مقامی کھپت کو ترجیح دینا تھا، تو ریاست نے پچھلے 12 سال میں آخر کیا کیا؟ یقینی طور پر اس نے مٹن انڈسٹری کو ترقی نہیں دی۔
کہاں ہیں جدید فارمنگ کے منصوبے؟ بیماریوں کی نگرانی کے اقدامات کہاں ہیں؟ افزائش نسل کے جدید پروگرام کہاں ہیں؟ ذبح کے قواعد و ضوابط کہاں ہیں؟ ایسے قیمتوں کے تعین کے نظام کہاں ہیں جو قابلیت کو انعام دیں، ناکہ نااہلی کو؟ صحت کے معائنے کہاں ہیں؟ کم عمر اور کم وزن جانوروں کے بڑے پیمانے پر ذبح کو روکنے کے لیے کم از کم عمر کے ضوابط کہاں ہیں؟ ڈی سی ریٹ پرائس کنٹرول ریٹیل مارکیٹ کو مسخ کر دیتے ہیں، جبکہ غیر منظم گوشت مارکیٹوں میں بغیر کسی حفظانِ صحت کے اقدامات کے ممکنہ طور پر مضرِ صحت گوشت فروخت ہو رہا ہے۔
اس کا موازنہ پولٹری سیکٹر سے کریں۔ چند دہائیوں میں ہی پاکستان کی پولٹری انڈسٹری پسماندہ دیہاتی دڑبوں سے ترقی کر کے ایک عالمی معیار کی برآمدی صنعت میں بدل گئی۔ لیکن یہ کسی سرکاری حکمت عملی یا مداخلت کے باعث نہیں ہوا—بلکہ اس لیے کہ حکومت نے راستے سے ہٹ کر مارکیٹ کو خود کام کرنے دیا۔ پولٹری کی ترقی کا راز نجی سرمایہ کاری، مقابلے اور جدت میں ہے، نہ کہ کسی سرکاری پالیسی یا بیوروکریسی کی مداخلت میں۔
دوسری جانب، مٹن ایک قدیم، حد سے زیادہ ریگولیٹ شدہ اور پسماندہ نظام میں پھنسا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر تجارتی فارمز، بیماریوں کی نگرانی، اور مناسب ذبح کے معیارات کو فروغ دینے کے بجائے، حکومت ڈی سی ریٹ کنٹرولز، من مانی پابندیوں اور دہائیوں کی لاپرواہی سے چمٹی ہوئی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ دکھاوا بھی کر رہی ہے کہ مسئلہ لا متناہی اجلاسوں اور ایک دوسرے سے متصادم کمیٹیوں کے ذریعے حل ہو رہا ہے۔
اس کے بجائے، ہمارے پاس ایک جمود زدہ اور قلیل مدتی سوچ پر مبنی نظام ہے، جہاں چھوٹے پروڈیوسرز فوری منافع کے پیچھے بھاگتے ہیں، اشرافیہ مصنوعی طور پر کم قیمتوں کا مطالبہ کرتے ہیں، اور باقی سب کو اس صنعت کے بچے کھچے ٹکڑوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت پاکستان کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک ہو سکتی تھی۔ کیونکہ اگر پاکستان کو کسی چیز میں واقعی قدرتی برتری حاصل ہے تو وہ ٹیکسٹائل، گندم، چینی یا چاول نہیں، بلکہ مٹن ہے۔ دنیا کے چند ہی ممالک کے پاس ایسا ماحول، زمین اور مویشیوں کا ذخیرہ ہے جو چھوٹے چرنے والے جانوروں کے گوشت کی پیداوار میں غلبہ حاصل کر سکے۔ اور اگر درست اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو پاکستان ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ مٹن برانڈ بنا سکتا ہے، جو زندہ جانوروں اور ذبیحہ شدہ جانور کے گوشت کے ساتھ ساتھ تیار شدہ مصنوعات اور روایتی کھانے بھی برآمد کر سکتا ہے۔
اور یہ سب سے زیادہ حیران کن بات ہے: زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی لگانا جبکہ کم قیمت والے منجمد ذبیحہ گوشت کی برآمد کی اجازت دینا معاشی لحاظ سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دونوں اقدامات مقامی سپلائی کو کم کرتے ہیں۔ دونوں مقامی طلب کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ اور اگر زندہ جانوروں کی برآمدات سے مقامی قیمتیں بڑھ جاتیں، تو کیا یہ بالکل وہی مارکیٹ اشارہ نہ ہوتا جس کی ضرورت سرمایہ کاروں کو بڑے پیمانے پر موٹے کیے جانے والے مویشیوں کے فارمز، پروسیسنگ سہولیات، اور برانڈنگ کے منصوبے بنانے کے لیے درکار ہوتا؟ آپ سپلائی کی رکاوٹوں کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے حل نہیں کرتے۔ آپ انہیں اس طرح حل کرتے ہیں کہ مارکیٹ کو سرمایہ کاری کے قابل بنا دیں۔
اسی دوران، کویت کی پاکستان کے مویشیوں میں دلچسپی بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ دنیا بھر میں منہ و پائوں کی بیماری کے خوف کے باوجود، کویت بظاہر اس معاملے میں نرمی برتنے کے لیے تیار تھا—یا تو مجبوری میں یا کسی اسٹریٹجک ضرورت کے تحت۔ لیکن اس موقع کو ایک عالمی معیار کا بیماریوں کی نگرانی اور برآمدی تعمیل کا نظام بنانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے، ہم اب بھی اسی پر بحث میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہمیں اس تجارت کی اجازت بھی دینی چاہیے یا نہیں۔ اور اگر صحت عامہ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زندہ جانور منجمد گوشت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بیماریوں کے خطرات رکھتے ہیں، پھر بھی ہمارا نظام غلط جگہوں پر، غلط وقت پر، غلط جنگ لڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہ پوری کہانی—ایس آئی ایف سی بمقابلہ ای سی سی، ای سی سی بمقابلہ کابینہ، پابندی بمقابلہ عدم پابندی—ہمارے نظام کی بوسیدگی کی بہترین تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ مسئلہ مٹن کا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے نظام کا ہے جو اپنی ہی پیچیدگیوں میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ خود اپنے راستے سے نہیں نکل سکتا۔ حکومت کے ہر سطح پر موجود ادارے بظاہر سہولت فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن حقیقت میں، ہر ادارہ رکاوٹیں، الجھن اور تاخیر میں اضافہ کرتا ہے۔
پاکستان میں مٹن کی برآمدات پر جاری بحث اس بات کی بہترین مثال ہے کہ ملک کیوں جمود کا شکار ہے: کم اہمیت کے معاملات، بے نتیجہ بحثیں، مفلوج ادارے، اور کسی قسم کا کوئی اسٹریٹجک وژن نہیں۔ ایک اشرافیہ جو اپنی سستی عیاشیوں سے چمٹی ہوئی ہے۔ ایک بیوروکریسی جو نتائج کے بجائے طریقہ کار پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اور ایک ایسی ریاست جو قدرتی برتری رکھنے کے باوجود اسے ضائع کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے۔
اور اسی دوران، منگول قریب آ رہے ہیں۔
Comments