پاکستان

قائمہ کمیٹی نے وزارت خوراک کو 57 کمپنیوں کو فیومیگیشن لائسنس جاری کرنے کی منظوری دیدی

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزارت خوراک کو 57 کمپنیوں کو فمیگیشن لائسنس جاری کرنے کی منظوری دے دی،...
شائع February 28, 2025

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزارت خوراک کو 57 کمپنیوں کو فمیگیشن لائسنس جاری کرنے کی منظوری دے دی، تاکہ چار کمپنیوں کی اجارہ داری کو شفاف طریقے سے ختم کیا جا سکے۔

کمیٹی نے بدنام زمانہ محکمہ پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کے اہلکاروں اور ان چاول برآمد کنندگان کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جو ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

یہ سفارش کمیٹی کے چیئرمین جاوید حنیف خان کی قیادت میں ہونے والی تفصیلی بحث کے بعد سامنے آئی، جس میں ڈی پی پی حکام اور فمیگیشن کے خام مال درآمد کرنے والی چار کمپنیوں کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ معاملہ سب سے پہلے قومی اسمبلی میں ایم این اے شرمیلا فاروقی نے اٹھایا تھا۔

مزید برآں، کمیٹی نے پیپلز پارٹی کے ایم این اے خورشید احمد جونیجو کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کے باوجود افریقی ممالک کو چاول کی برآمدات کے لیے کم از کم شرائط میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ خورشید جونیجو نے دلیل دی کہ ان شرائط میں تبدیلی سے ایرری-6 چاول کی برآمدات متاثر ہوں گی، جس سے سندھ کے کسانوں کو نقصان پہنچے گا۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اس اسکینڈل کی تحقیقات کر رہی ہے، اور ڈی پی پی کے تکنیکی ڈائریکٹر جنرل کو کرپشن کے الزامات کے باعث معطل کیا جا چکا ہے۔ وزارت خوراک کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ پہلے گرفتار ہونے والے ڈی پی پی کے 17 اہلکار، جو چاول برآمد کنندگان کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث تھے، اب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔

کمیٹی کو مزید آگاہ کیا گیا کہ وزیر اعظم نے ہدایت دی ہے کہ ڈی پی پی کا کوئی بھی ایسا اہلکار، جو ملک کی ساکھ خراب کرنے میں ملوث ہو، اسے دوبارہ کسی بھی عہدے پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، کمیٹی کے چیئرمین نے ان اقدامات پر عمل درآمد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (ریپ) کے نمائندوں نے معطل شدہ 17 ڈی پی پی اہلکاروں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور سارا الزام ایک ہی پتے سے کام کرنے والی چار کمپنیوں پر ڈال دیا۔ تاہم، وزارت کے حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معطل شدہ اہلکاروں میں سے کچھ نے جعلی کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

ریپ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افریقی منڈیوں کے لیے چاول کی برآمدات پر عائد سخت شرائط میں نرمی کرے، کیونکہ ان شرائط سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی چاول غیر مسابقتی ہو رہے ہیں، جبکہ بھارت کے ساتھ قیمت کا فرق صرف 2 ڈالر فی ٹن رہ گیا ہے۔

وزارت تجارت کے اسپیشل سیکریٹری شکیل احمد منگیجو نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ حکومتی اقدامات کے بہتر نفاذ کے باعث چاول کی برآمدات میں رکاوٹوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یورپی یونین کو چاول کی برآمدات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم دیگر منڈیوں میں اب بھی چیلنجز موجود ہیں۔ ریپ نے افریقی منڈیوں کے لیے معائنہ کے قواعد میں نرمی کا بھی مطالبہ کیا، کیونکہ دیگر ممالک سے چاول کی برآمدات پر ایسی شرائط عائد نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برآمدات پر 18 دن کی پابندی کے باعث چاول کی برآمدات میں گزشتہ دو ماہ میں 800 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

اجلاس کے دوران، کمیٹی نے یورپی یونین کی جانب سے چاول کی برآمدات میں زائد کیمیکل باقیات کے حوالے سے جاری کردہ مختلف وارننگ الرٹس کا جائزہ لیا۔ چیئرمین نے قانونی اور معیاری اصولوں کی سختی سے پابندی پر زور دیا اور رکاوٹیں پیدا کرنے کے ذمہ دار افراد کے خلاف احتساب کا مطالبہ کیا۔

سرکاری بیان کے مطابق، کمیٹی نے فمیگیشن کے شعبے میں موجود اجارہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی، جو چاول برآمد کنندگان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ چیئرمین نے زور دیا کہ ان اجارہ داریوں کے خاتمے اور برآمد کنندگان کے لیے ایک منصفانہ ماحول کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس کے نتیجے میں، کمیٹی نے توجہ دلاؤ نوٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ اس معاملے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے 30 دن بعد دوبارہ اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔

کمیٹی نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے مختلف بجٹ تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ جن اہم مسائل پر غور کیا گیا، ان میں 2017 میں شروع کیے گئے کوئٹہ ایکسپورٹ سینٹر کی تکمیل میں تاخیر بھی شامل تھی۔ کمیٹی کے ارکان نے وفاقی اور بلوچستان حکومت کے درمیان زمین کی الاٹمنٹ پر ناقص ہم آہنگی کی وجہ سے پیش رفت کی سست رفتاری پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کے لیے ایکسپورٹ ایکسیلیریٹر پروگرام پر بھی بات چیت ہوئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس منصوبے کے لیے پی سی-1 دستاویز 28 فروری 2025 کو جمع کرائی جائے گی۔

اجلاس میں ایم این ایز محمد مبین عارف، اسامہ احمد میلہ، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، اسد عالم نیازی، محمد احمد چٹھہ، محمد عاطف، طاہرہ اورنگزیب، کرن حیدر، چوہدری افتخار نذیر، رانا مبشر اقبال، اور خورشید احمد جونیجو نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی، جبکہ محمد علی سرفراز، رانا عاطف، اور فرحان چشتی نے ورچوئلی شرکت کی۔

شرمیلا فاروقی نے ورچوئل شرکت کی جبکہ علی موسیٰ گیلانی کو خصوصی رکن کے طور پر اجلاس میں بلایا گیا۔ اجلاس میں وزارت تجارت، نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ ، پاکستان ری انشورنس کمپنی، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان، ڈی پی پی، پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ، وزارت قومی خوراک و تحقیق کے سینئر حکام اور ریپ کے چیئرمین بھی موجود تھے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف