پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی زبوں حالی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو کئی پہلوؤں پر محیط ہے، جن میں فرسودہ نصاب، اساتذہ کے معیار کے مسائل، اور غیر قانونی طور پر قائم کردہ نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

ان میں سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ غیر قانونی تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔ حالیہ برسوں میں، موقع پرست عناصر نے بڑی تعداد میں ایسے غیر منظم ادارے قائم کیے ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) سے تسلیم شدہ نہیں ہیں اور محض مالی فائدے کے لیے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان اداروں نے نگرانی کے فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم درجے کی تعلیم اور جعلی ڈگریاں فراہم کیں جس سے مجموعی طور پر تعلیمی نظام کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔

لیکن طالب علموں کو پہنچنے والے نقصان کے علاوہ یہاں ایک اہم پہلو نظر انداز کیا گیا ہے جس کا تعلق قومی خزانے پر پڑنے والے گہرے اثرات سے ہے۔

چونکہ یہ ادارے باضابطہ منظوری کے بغیر کام کررہے ہیں، اس لیے ان کی ٹیکس دہندہ حیثیت، مالی شفافیت اور بے ضابطہ سرگرمیوں کے نتیجے میں ہونے والے محصولی نقصانات جیسے سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

اس اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے عین سامنے بڑے پیمانے پر ممکنہ ٹیکس چوری کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ایک شہری نے صدرِ مملکت کو ایک ریفرنس دائر کیا ہے۔ اس میں درخواست کی گئی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) سے غیر منظور شدہ یونیورسٹیوں کے ٹیکس معاملات کی تحقیقات کے لیے فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) کو کارروائی کی ہدایت دی جائے۔

صدرِ مملکت نے اس معاملے کو فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) کے حوالے کرتے ہوئے غیر قانونی تعلیمی اداروں کی ممکنہ ٹیکس دھوکہ دہی اور ایف بی آر کی ممکنہ غفلت کی جامع تحقیقات کا حکم دیا ہے، تاکہ کسی بھی کوتاہی یا بدانتظامی کی ذمہ داری طے کی جا سکے۔

تاہم، ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، نہ تو ایف ٹی او کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور نہ ہی صدرِ مملکت کے سامنے کوئی رپورٹ پیش کی گئی، جس سے بیوروکریسی کی تاخیر، سرکاری امور میں شفافیت کی کمی اور ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کے عزم پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔

یہ قابلِ ذکر ہے کہ دسمبر 2023 میں ہی ایف ٹی او نے سیکرٹری ریونیو ڈویژن، ممبر آپریشنز ان لینڈ ریونیو پالیسی، لارج ٹیکس پیئر آفس اور کارپوریٹ ٹیکس آفس کے چیف کمشنرز کونوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے اس معاملے پر تبصرے طلب کیے تھے۔

مسلسل پیش رفت کا فقدان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ متعلقہ حکام نے اس معاملے کو درکار توجہ نہیں دی اور نہ ہی اس سے متعلق خدشات دور کرنے کے لیے کوئی مؤثر اقدام اٹھایا ہے۔ ایسے حالات میں یہ غفلت تشویشناک ہے، خاص طور پر جب ملک سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہو، تو یہ رویہ قطعی ناقابلِ قبول بن جاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی نشاندہی کی جا چکی ہے، ایف بی آر دیانتدار اور ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں پر دباؤ ڈالنے اور ہر ممکن طریقے سے ٹیکس وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔

لیکن جب بڑے پیمانے پر ممکنہ ٹیکس چوری میں ملوث اداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کی بات آتی ہے، تو ایف بی آر خاموشی اختیار کرلیتا ہے، جو اس کی ترجیحات، قابلیت اور دیانتداری پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

ایچ ای سی وقتاً فوقتاً غیر رجسٹرڈ اداروں کی فہرستیں جاری کرتا ہے، اس لیے ان کے ٹیکس معاملات کی جانچ پڑتال ناممکن نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان کے نام عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔ ایف ٹی او کو اس معاملے پر فوری پیش رفت کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایف بی آر مزید تاخیر یا گریز کی پالیسی اختیار نہ کرے۔

متعلقہ حکام کو ان سوالات کے جواب دینے ہوں گے: کیا یہ غیر تسلیم شدہ ادارے ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں اور ٹیکس قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں؟ ان کے غیر منظم آپریشنز کی وجہ سے کتنا ریونیو ضائع ہو رہا ہے؟ اور ان کی مالی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

مزید برآں، وفاقی اور صوبائی ہائر ایجوکیشن اتھارٹیز کو ایک مؤثر نظام وضع کرنا ہوگا جو غیر رجسٹرڈ اداروں کو قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے اور مقررہ مدت کے اندر رجسٹریشن کروانے کا پابند بنائےبصورت دیگر انہیں فوری بندش کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسا کرنے میں ناکامی نے تعلیمی معیار کو متاثر کیا، عوام کو دھوکہ دیا اور نمایاں ٹیکس خسارے کا سبب بنی۔ ایسی غفلت کسی صورت جاری نہیں رہنی چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف