گزشتہ دہائی کے دوران، شمسی توانائی ایک متبادل ذریعہ سے بڑھ کر پاکستان میں بڑا توانائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ صرف 2024 میں اندازاً 22 گیگا واٹ کے شمسی پینلز درآمد کیے گئے، جس کے باعث پاکستان ایشیا پیسفک خطے کی سب سے امید افزا شمسی توانائی کی منڈیوں میں شامل ہو گیا ہے۔ گھر کی چھتوں پر شمسی توانائی کی تیزی سے اپنائی جانے والی پالیسی، قیمتوں میں کمی، اور سازگار دھوپ کے حالات نے ملک کو قابل تجدید توانائی کی طرف گامزن کر دیا ہے۔ تاہم، اس منتقلی نے قومی گرڈ اور پالیسی سازوں کے لیے بڑے چیلنجز بھی پیدا کر دیے ہیں، جس سے اس تبدیلی کی پائیداری پر اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔
شمسی توانائی کی مانگ میں بے پناہ اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، غیر یقینی گرڈ سپلائی، اور ماحولیاتی استحکام کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی۔ گھریلو صارفین، کاروباری ادارے، اور صنعتیں توانائی کے اخراجات میں کمی اور گرڈ پر انحصار کم کرنے کے لیے شمسی توانائی کو اپنا رہے ہیں۔
چین کی پاکستان میں جارحانہ سرمایہ کاری نے شمسی توانائی کو پہلے سے کہیں زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ مینوفیکچررز کے درمیان سخت مقابلے کے باعث قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جس سے یہ صارفین کے لیے مزید پرکشش آپشن بن گئی ہے۔ مزید برآں، مقامی طور پر تیار کردہ انورٹرز اور بیٹری اسٹوریج کے بڑھتے ہوئے مواقع نے پاکستان کے شمسی توانائی کے نظام کو مزید مضبوط کیا ہے۔
اگرچہ حکومتی مراعات محدود ہیں، لیکن انہوں نے کچھ کردار ضرور ادا کیا ہے۔ مقامی بیٹری اور انورٹر اسمبلی کی حمایت، پرزہ جات پر درآمدی ڈیوٹیز میں کمی، اور شمسی توانائی کے مقامی مینوفیکچررز کے لیے مراعات کا مقصد مقامی پیداوار کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، شمسی پینلز کی مقامی سطح پر تیاری اب بھی غیر موزوں ہے کیونکہ اس میں زیادہ لاگت آتی ہے اور خام مال کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
بی آر ریسرچ سے بات کرتے ہوئے لونگی سولر پاکستان کے جنرل منیجر علی مجید نے کہا کہ صورتحال بالکل الٹ ہو چکی ہے۔ پہلے لوگ شمسی توانائی استعمال نہیں کرتے تھے، اور اب یہ بڑے پیمانے پر گھروں کی چھتوں پر نصب کی جا رہی ہے۔ مارکیٹ ترقی کر رہی ہے، مقابلہ بڑھ رہا ہے، اور عالمی کمپنیاں بھی پاکستان کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم توانائی کے ذخیرے (اسٹوریج) اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلیوں کو کیسے سنبھالتے ہیں۔
شمسی توانائی میں اس تیز رفتار اضافے کے باوجود، اس نے پاکستان کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ نیٹ میٹرنگ پالیسیز، جو ابتدا میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے متعارف کروائی گئی تھیں، اب حکومت کے لیے مالی چیلنج بن چکی ہیں۔ جیسے جیسے صارفین اپنی بجلی خود پیدا کر رہے ہیں اور اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کر رہے ہیں، روایتی بجلی کی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس تبدیلی نے پہلے سے مالی بحران کا شکار بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ریونیو ماڈل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس کے علاوہ، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز) جن کے ساتھ حکومت نے طویل مدتی معاہدے کر رکھے ہیں، مالی بوجھ میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ پاکستان کا توانائی کا شعبہ مہنگے معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے، جس کے تحت حکومت کو معاہدے کے مطابق بجلی خریدنی پڑتی ہے، چاہے طلب ہو یا نہ ہو۔ جیسے جیسے صارفین شمسی توانائی کی طرف جا رہے ہیں، گرڈ سے بجلی کی کھپت کم ہو رہی ہے، لیکن حکومت کو اب بھی زائد بجلی کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے جو استعمال نہیں ہو رہی۔ یہ عدم توازن عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جو گرڈ بجلی کی کم ہوتی طلب پر خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔
نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ممکنہ تبدیلیوں اور حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کی اضافی بجلی کی قیمتیں کم کرنے پر غور کے باعث، صارفین متبادل حل تلاش کر رہے ہیں۔ بیٹری اسٹوریج پاکستان کے شمسی انقلاب کا اگلا مرحلہ بنتا جا رہا ہے، جس کے ذریعے گھر اور کاروبار اپنی پیدا کردہ بجلی ذخیرہ کر سکیں گے اور گرڈ پر انحصار کم کر سکیں گے۔
لیتھیم آئن اور دیگر بیٹری ٹیکنالوجیز کی گرتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ان کی تیاری کی کوششیں بھی اس منتقلی کو تیز کر سکتی ہیں۔ تاہم، ابھی کئی چیلنجز باقی ہیں، جن میں بیٹری کی محدود عمر، زیادہ ابتدائی لاگت، اور فضلے کے مؤثر انتظام کے لیے بہتر ری سائیکلنگ ڈھانچے کی ضرورت شامل ہے۔
حکومت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک طرف، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا عالمی پائیداری کے اہداف سے مطابقت رکھتا ہے، درآمد شدہ فوسل فیول پر انحصار کم کرتا ہے اور پاکستان کے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری طرف، قومی گرڈ اور توانائی کے شعبے کی مالی استحکام کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایک توازن قائم کرنے کے لیے، پالیسی سازوں کو نیٹ میٹرنگ اصلاحات کو بتدریج متعارف کرانے پر غور کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ اچانک کمی کی جائے، تاکہ صارفین اور بجلی کمپنیوں کے لیے ایڈجسٹمنٹ کا عمل ہموار ہو سکے۔ انہیں گرڈ کو جدید بنانے میں سرمایہ کاری پر غور کرنا چاہیے، جیسے کہ اسمارٹ گرڈز اور غیر مرکزی توانائی کی تقسیم کو فروغ دینا، جو شمسی توانائی کو زیادہ مؤثر طریقے سے مربوط کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
ایک اور ممکنہ حل توانائی کے ذخیرے (بیٹری اسٹوریج) کے لیے سبسڈی فراہم کرنا ہو سکتا ہے، جس کا مقصد بیٹری اپنانے کو سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے حوصلہ دینا ہے، تاکہ صارفین خود کفیل ہو سکیں لیکن مکمل طور پر گرڈ سے علیحدہ نہ ہوں۔ آخر میں، مقامی مینوفیکچرنگ کی معاونت طویل مدتی نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ اگر حکومت مقامی بیٹری اور انورٹر کی پیداوار کے لیے مراعات میں اضافہ کرے تو یہ نہ صرف درآمدات پر انحصار کم کرے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گی۔
پاکستان ایک شمسی توانائی کے انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے، جس میں اپنی توانائی کی صورتحال کو یکسر بدلنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ تاہم، اس تیز رفتار اپنانے نے گرڈ کے لیے معاشی اور ساختی چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔ ایک مدبرانہ اور مؤثر پالیسی فریم ورک، جو قابل تجدید توانائی اور بجلی کے شعبے کے استحکام دونوں کو معاونت فراہم کرے، انتہائی ضروری ہے۔ اگر اس تبدیلی کو حکمت عملی کے ساتھ سنبھالا جائے، تو پاکستان توانائی کے پایئدار مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے، جبکہ قومی گرڈ کو مستحکم رکھتے ہوئے شمسی توانائی کو ایک مسئلے کے بجائے ایک مؤثر حل کے طور پر برقرار رکھ سکتا ہے۔
Comments