وزیر اعظم شہبازشریف نے دہشت گردی کے خاتمے کو معاشی استحکام کے لیے لازمی شرط قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب فوجی کارروائیوں کے باوجود حالیہ مہینوں میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
آگے بڑھنے کا راستہ نہ صرف انٹیلیجنس نظام کو مزید مضبوط بنا کر حملوں کو روکنا ہے بلکہ ملک میں سرگرم مختلف دہشت گرد گروہوں کے درمیان فرق کرنا اور ان گروہوں کے ساتھ بامقصد سیاسی مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنا بھی ضروری ہے، بشمول ان گروہوں کے جو کالعدم قرار دیے جاچکے ہیں اور جنہیں احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہے ۔
تاہم وزیراعظم کا یہ مؤقف خود ان کے اپنے دعوے اور وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کے دعوے، کو چیلنج کرتا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام حاصل کر لیا گیا ہے—یہ دعویٰ جاری کھاتے کے سرپلس اور مہنگائی میں نمایاں کمی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے جاری کھاتہ دوبارہ خسارے میں چلا گیا ہے، کیونکہ برآمدات میں اضافہ بنیادی طور پر بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر عائد پابندی (جو اب ہٹا لی گئی ہے) اور بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام (جو اب ختم ہو چکا ہے) کی وجہ سے ہوا تھا۔
برآمدات کا انحصار بدستور نجی شعبے پر ہے جو ماضی میں مالیاتی اور مانیٹری مراعات حاصل کرتا رہا لیکن جاری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت کیے گئے معاہدے کے مطابق یہ مراعات بڑی حد تک واپس لے لی گئی ہیں۔
ڈسکاؤنٹ ریٹ کو گزشتہ سال اپریل میں 22 فیصد سے کم کرکے حال ہی میں 12 فیصد کرنے سے یقینی طور پر سرمائے کی لاگت میں کمی آئی ہے تاہم یہ علاقائی اوسط (بھارت کے مقابلے میں دگنا) سے زیادہ ہے جس کے باعث برآمد کنندگان کو مسابقتی برتری حاصل نہیں ہورہی۔
یہ درست ہے کہ نجی شعبے کو دیا جانے والا قرض غیر معمولی طور پر بڑھا—جولائی تا 12 جنوری 2023-24 میں 123 ارب روپے سے بڑھ کر جولائی تا 10 جنوری 2024-25 میں 1632.6 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ تاہم، اس اضافے کا زیادہ تر حصہ اسٹاک مارکیٹ میں گیا، جو نہ تو پیداوار میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے اور نہ ہی ملک کے نچلے اور متوسط طبقے کی آمدنی میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کی تائید پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ (ایس ایس ایم) کے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق نومبر 2024 میں ایل ایس ایم نے سالانہ بنیادوں پر منفی 3.81 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر منفی 1.19 فیصد کی شرح درج کی۔
درآمدات کو انتظامی اقدامات کے ذریعے محدود رکھا جا رہا ہے تاکہ جاری کھاتے پر دباؤ کم کیا جاسکے، لیکن اس کے نتیجے میں ان شعبوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے جو اپنی پیداوار کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار کرتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح جولائی تا جنوری 2023-24 میں 28.73 فیصد تھی، جو جولائی تا جنوری 2024-25 میں کم ہو کر 6.50 فیصد پر آ گئی ہے۔
یہ بلاشبہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر (i) غریب اور کمزور طبقے کے لیے سبسڈی والے بجلی کے نرخوں کو اوسط نرخ کے بجائے الگ سے شامل کرنے، اور (ii) یوٹیلیٹی اسٹورز پر مخصوص ضروری اشیاء پر دی گئی سبسڈی کی بدولت ممکن ہوئی۔ تاہم، ان اسٹورز میں خالی شیلف اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ سپلائی ناکافی رہی۔
آزاد معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی مہنگائی کی شرح اب بھی دہرے ہندسے میں ہے۔ تاہم، ایک اہم پہلو جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ نجی شعبے میں کام کرنے والی اکثریتی افرادی قوت (جس کا تخمینہ 93 فیصد ہے) کی آمدنی میں 20 سے 25 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں غربت کی سطح بڑھ کر 44 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے—جو جولائی تا جنوری 2023-24 میں 976 ملین ڈالر تھی، وہ اسی مدت کے دوران رواں سال بڑھ کر 1.525 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم، اس رقم کا جائزہ ان 25 ارب ڈالر سے زائد کے مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) کے تناظر میں لینا ضروری ہے، جو دوست ممالک (چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ) کے نجی شعبے کے ساتھ طے پائے۔ ساتھ ہی، اس کا موازنہ عالمی اور علاقائی سطح پر بھی کرنا ہوگا—جہاں مجموعی طور پر براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے، جب کہ جنوری تا نومبر 2024 کے دوران چین میں ایف ڈی آئی کی آمد 747 ارب ڈالر اور بھارت میں چھ ماہ کے دوران 29.7 ارب ڈالر رہی۔
اختتاماً، دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج کی ماضی، حال اور مستقبل کی قربانیوں کو بے دریغ سراہا جانا چاہیے۔ تاہم، امید ہے کہ ان قربانیوں کے پیش نظر اشرافیہ—جو ہمارے ٹیکس کے بڑے حصے کی وصول کنندہ ہے—بھی رضاکارانہ طور پر ایک یا دو سال کے لیے اپنے بجٹ شدہ مراعات سے دستبردار ہو، تاکہ ملک میں معاشی استحکام حاصل کیا جاسکے۔ کیونکہ بجٹ اخراجات پورے کرنے اور ماضی کے قرضوں (سود سمیت اصل رقم) کی ادائیگی کے لیے بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ عوام پر ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments