کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جائینگے، قائمہ کمیٹی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر میں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے، بشمول پارلیمنٹ کیفے ٹیریا کے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی سے باضابطہ طور پر مناسب اقدام کی سفارش کی جائے گی۔
کمیٹی کا اجلاس پیر کو چیئرمین سید حفیظ الدین کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں رکن قومی اسمبلی سید رفیع اللہ کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے پر غور کیا گیا۔ کمیٹی نے عزم ظاہر کیا کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائینگے۔
رکن قومی اسمبلی سید رفیع اللہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی ہدایت کے باوجود ای پی زیڈ اے اور متعدد صنعتی یونٹس اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے اس معاملے کو ایوان میں اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ حکومت کی کم از کم اجرت سے متعلق ہدایت ملک بھر میں نافذ نہیں کی جا رہی ہے۔ کمیٹی نے ایوان پر زور دیا کہ وہ اس قانون پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے تاکہ کم آمدنی والے مزدوروں کے حقوق کا مزید استحصال روکا جا سکے۔
کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کنٹریکٹر سسٹم کو من مانی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے، جس کے باعث مزدوروں کو مقررہ اجرت نہیں مل رہی۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگرچہ کمیٹی کو اختیار حاصل ہے، لیکن یہ مسئلہ پورے ملک کو متاثر کرتا ہے اور اس کے لیے پارلیمانی مداخلت ضروری ہے، اسی لیے یہ معاملہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیجا جا رہا ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے حکومت کی کم از کم اجرت کی پالیسی خصوصا ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں بھی عملدرآمد نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
کمیٹی ممبران نے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار اور وفاقی سیکرٹری صنعت کی اجلاسوں سے غیر حاضری پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اراکین نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کے ملازمین کی برطرفی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
قائمہ کمیٹی نے کمیٹی کے اجلاس میں متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے اس طرح کے مباحثوں میں وزارتی موجودگی کی اہمیت پر زور دیا اور سفارش کی کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر اب تک ہونے والے کابینہ کمیٹی کے تمام اجلاسوں کے منٹس فراہم کیے جائیں۔
علاوہ ازیں کمیٹی نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین کی برطرفی پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور منیجنگ ڈائریکٹر یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو متاثرہ ملازمین کی تفصیلی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی۔
کمیٹی نے کنسلٹنٹس کے ذریعے کے الیکٹرک کی ایم این ایز سے براہ راست وابستگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ نے کے الیکٹرک کے نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک نجی ادارہ کمیٹی کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے اور کہا کہ اس طرح کے مذاکرات بیرونی لابنگ کے بجائے کمیٹی کے اندر ہونے چاہئیں۔
کمیٹی نے دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے مقابلے میں کے الیکٹرک کے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بھی جائزہ لیا۔ اراکین نے چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔
کمیٹی نے کے الیکٹرک کی جانب سے کورونا وائرس کے دوران کراچی کی صنعتوں کو فراہم کی جانے والی بجلی کے بلوں پر سبسڈی کے معاملے پر بھی غور کیا، یہ معاملہ اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
نیپرا کے نمائندے نے کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا عدالت کے فیصلے پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔
کمیٹی نے تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد صنعتوں اور کے الیکٹرک کے درمیان ثالثی کا حل طلب کیا۔ عدالت نے پاور ڈویژن، نیپرا، کے الیکٹرک اور کمیٹی کے دو ارکان کو ہدایت کی کہ وہ دوستانہ حل کے لیے کام کریں اور کمیٹی کو رپورٹ پیش کریں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments