حال ہی میں، آٹھ کثیرالجہتی ترقیاتی مالیاتی اداروں، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن شامل ہیں، نے اہم معاشی اور توانائی کے وزراء کو ایک خط لکھا، جس میں متنبہ کیا گیا کہ قابل تجدید توانائی کے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پی) کے معاہدوں پر یکطرفہ نظرثانی توانائی کے شعبے کے طویل مدتی استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگی اور انتہائی ضروری نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گی۔
یہ ایک تشویشناک علامت ہے اس معیشت کے لیے جو ترقی کی بحالی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری اور قرضوں کی شدت سے محتاج ہے۔
مسئلہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں پر نظر ثانی کا نہیں ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا، اور سرمایہ کاروں نے ان خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) پر دستخط کیے تھے۔ تاریخی طور پر، ہر نئی توانائی پالیسی میں سرمایہ کاروں نے زیادہ منافع اور مضبوط ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم، خط کے لہجے اور آئی پی پیز مالکان اور قرض دہندگان سے غیر رسمی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات جس انداز میں کیے جا رہے ہیں، وہ فائدے کے بجائے نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حکومت کو پیچھے ہٹ کر اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور ٹیرف کا ازسرِ نو تعین انتہائی ضروری ہے۔ غیر استعمال شدہ آئی پی پیز قرض دہندگان اور شیئر ہولڈرز کے لیے طویل المدتی ادائیگی کے خطرے کا باعث بنتے ہیں، جبکہ پائیدار طلب میں اضافہ تبھی ممکن ہے جب ٹیرف میں کمی کی جائے۔ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم میں موجود نااہلیوں کا خاتمہ اس کے لیے ضروری ہے۔
توانائی ٹاسک فورس کو اس شعبے میں اصلاحات کے لیے قائم کیا گیا تھا، لیکن اس کے طریقہ کار پر سنجیدہ نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پرانی آئی پی پیز (1994 اور 2002 کی پالیسیوں کے تحت) پر دوبارہ مذاکرات سے ٹیرف میں کوئی بڑی کمی تو حاصل نہیں ہوئی، لیکن اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ضرور دھچکا لگا ہے۔
آئی پی پیز سیکٹر سے باہر ملکی کاروباری مالکان نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، اور ایسے وقت میں جب مالیاتی سرمایہ پہلے ہی ملک سے باہر جا رہا ہے، پاکستان مزید خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
اب پاکستان کے غیر ملکی قرض دہندگان بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ٹاسک فورس ونڈ اور سولر آئی پی پیز کے پی پی ایز میں ترمیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں ان مالیاتی اداروں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئیز) کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 25 سالوں میں پاکستان کے توانائی کے شعبے میں مجموعی طور پر 2.7 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر اعتماد کی یہ کمی برقرار رہی تو مستقبل میں سرمایہ کاری کی یہ لائن مکمل طور پر بند ہو سکتی ہے۔
اگر یہی طرزِ عمل جاری رہا تو اگلا ہدف چینی آئی پی پیز ہوں گے، جہاں سرمایہ کاری 27 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اور چین پاکستان کا سب سے بڑا دوطرفہ سرمایہ کار اور قرض دہندہ ہے۔
حکومت کو چینی قرض دہندگان کے ساتھ پیشگی مشاورت کرنی چاہیے تاکہ منصوبوں اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہاں بدانتظامی وسیع تر اقتصادی تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، جبکہ پاکستان سی پیک فیز 2 کے آغاز کی امید لگائے بیٹھا ہے، جس میں صنعتی منتقلی کو فروغ دینا مقصود ہے۔ یہ عمل پہلے ہی چینی خدشات، بشمول ان کے عملے کو لاحق سیکیورٹی خطرات، کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت کو مزید مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
ساتھ ہی، مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک سے سرمایہ کاری—بشمول ڈی ایف آئیز—انتہائی اہم ہے۔ تاہم، ان ذرائع سے کوئی ٹھوس وعدے سامنے نہیں آئے، اور جاری آئی پی پیز مذاکرات پہلے سے کیے گئے معاہدوں کو بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر سکتے ہیں، خاص طور پر حالیہ کے الیکٹرک کے قابلِ تجدید توانائی منصوبے۔
ڈی ایف آئیز کا پیغام واضح ہے: سخت رویہ اختیار کر کے کیے گئے مذاکرات سرمایہ کاری کے رجحان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ غلط فہمی کہ جبر سے سرمایہ کاری کے بہاؤ پر اثر نہیں پڑے گا، پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی ہے۔ پاکستان پہلے ہی ڈالرز کی کمی کا شکار ہے، اور ہر ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ ان وسائل کے حصول کے راستے کم ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ ملک اپنے آخری سرمایہ کاری شراکت داروں کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ٹاسک فورس کو وقت ضائع کیے بغیر اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments