وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’پلاٹس اور فائلوں‘ کے کاروبار کی حمایت نہیں کرے گی، جو پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں قیاس آرائیوں کا رواج ہے،جسے انہوں نے غیر پائیدار عمل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب تعمیراتی صنعت کے ساتھ ہیں، لیکن ہمیں رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے.
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت پلاٹوں اور فائلوں کے کاروبار کی حمایت نہیں کرے گی، یہ پائیدارعمل نہیں ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف سی سی آئی) میں تیسری آل پاکستان چیمبرز پریذیڈنٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پلاٹس اینڈ فائل کے کاروبار سے مراد رئیل اسٹیٹ کا رواج ہے، جو بنیادی طور پر پاکستان میں رائج ہے، جہاں افراد پلاٹ فائلیں خریدتے اور فروخت کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ایسی دستاویزات ہیں جو حقیقی پلاٹ کے بجائے ترقی پذیر ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر مستقبل کی زمین کے ٹکڑے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک فائل خریدتے ہیں جو آپ کو زمین کی ترقی اور بیلٹنگ کے عمل کے ذریعے مختص کرنے کے بعد پلاٹ کا حق دیتا ہے ، جس سے پلاٹ حقیقی طور پر دستیاب ہونے سے پہلے فائل کو زیادہ قیمت پر فروخت کرکے ممکنہ منافع حاصل ہوتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر پاکستان کے انحصار سے متعلق خدشات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کے لئے ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
اورنگ زیب نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 9 سے 10 فیصد ہونا پائیدار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 24 سے 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اگر صرف ایک مخصوص فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں تو ترقی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اسپتال اور تعلیمی ادارے خیرات سے چل سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چل سکتی، حکومت معاشی استحکام کے حصول کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھا کر 13.5 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ریٹیل، ہول سیل، رئیل اسٹیٹ، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکس نظام میں اپنا حصہ شامل چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ٹیکس فائلنگ کے عمل کو آسان بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر تک 80 سے 90 فیصد تنخواہ دار طبقہ ٹیکس مشیر یا وکیل کی ضرورت کے بغیر اپنے فارم آن لائن بھر سکے گا۔
انہوں نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ حکومت کی نجکاری کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے ہم اس بات کا جائزہ لینا شروع کریں گے کہ کس نے کیا سفارش کی ہے، ہم اسے کیسے آگے بڑھائیں گے اور فنڈ پروگرام کے تناظر میں ہم کیا کر سکتے ہیں، انہوں نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ رہنا چاہئے۔
Comments