اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں کے دوران تقریباً تمام پاکستانی حکومتیں ایسا رجحان ظاہر کرتی ہیں جو نہ صرف غیر حقیقی ہوتا ہے بلکہ زیادہ تشویشناک بات یہ ہوتی ہے کہ اسے ایسی مناسب پالیسیوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی جو آزاد ماہرینِ معیشت کو یہ اعتماد دے سکیں کہ مقررہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

2019 کے بعد سے یہ صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، کیونکہ ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت رکھا گیا ہے – 2019 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف)، 2023 میں اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ اور 2024 میں ایک اور ای ایف ایف – جس کے نتیجے میں سخت مالی اور زری پالیسیاں نافذ کرنا لازم ہو گیا، ساتھ ہی تمام تر مراعات ختم کردی گئیں، جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اسی غیر حقیقی امید کے تحت موجودہ معاشی ٹیم کے رہنما بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ اصلاحات جاری ہیں، حالانکہ اب تک صرف وہی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں جن کے تحت صارفین کے لیے بجلی، گیس اور دیگر سہولیات کے نرخ بڑھائے گئے ہیں – ایسی پالیسیاں جو عوام کو حکومت سے مزید بدظن کر رہی ہیں۔

آئی ایم ایف سے طے شدہ اسٹرکچرل بینچ مارکس تاحال التوا کا شکار ہیں۔ نجکاری کا عمل مطلوبہ تیاری کے فقدان اور ملک میں خراب سرمایہ کاری ماحول کی وجہ سے رکا ہوا ہے، جس کا واضح ثبوت پی آئی اے کی نجکاری کی ناکام کوشش ہے۔ آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کے معاہدوں کی دوبارہ گفت و شنید صرف مقامی سرمایہ کاروں تک محدود رکھی گئی ہے، جبکہ چینی سرمایہ کار بجا طور پر حکومت سے اپنے معاہدوں کی شرائط پر عملدرآمد کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ٹیکس اصلاحات بھی تاخیر کا شکار ہیں کیونکہ حکومت کا 75 فیصد سے زائد انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے، جو غریب طبقے پر امیر طبقے کی نسبت زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔ بجٹ میں شامل جاری اخراجات بدستور اشرافیہ کی ضروریات پوری کررہے ہیں اور ان اخراجات کو بیرونی اور اندرونی قرضوں سے پورا کیا جارہا ہے۔

اگر آئی ایم ایف کا کوئی فعال پروگرام موجود نہ ہو تو حکومت کی بیرونی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ اس میں سود اور اصل رقم کی بروقت ادائیگی شامل ہے۔ اگر یہ ادائیگیاں مقررہ وقت پر نہ کی جا سکیں تو ملک کے ڈیفالٹ کرنے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال میں حکومت ماضی کی طرح حقیقت پسندانہ اہداف کے بجائے ممکنہ امکانات پر توجہ دے رہی ہے۔ خاص طور پر، وہ صرف مسائل کی نشاندہی اور اصلاحات کے دعوے کررہی ہے جبکہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے جو مطلوبہ اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے آئندہ پانچ سال میں 60 ارب ڈالر کے برآمدی امکانات کو اجاگر کیا ہے۔ تاہم، اس سے قبل بھی وہ اپنے 10 سالہ وژن میں ایسے ہی امکانات پیش کرچکے ہیں جو تاحال حاصل نہیں کیے جاسکے۔

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اس وقت ایمرجنگ مارکیٹس کانفرنس 2025 میں شرکت کیلئے سعودی عرب میں موجود ہیں، کانفرنس میں علاقائی اقتصادی تعاون، مالیاتی پالیسیوں اور ترقیاتی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

فروری 2024 کے انتخابات کے بعد سے پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی کا محور براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا رہا ہے۔ اس سلسلے میں توجہ خاص طور پر دوست ممالک، یعنی چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات پر مرکوز رہی ہے۔

یہ حکمت عملی منفرد ہے کیونکہ وہ ممالک جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کر رہے ہیں، جیسے کہ چین (جنوری تا نومبر 2024 میں 747 ارب ڈالر) اور بھارت (گزشتہ سال کے چھ ماہ میں 29.7 ارب ڈالر)، انہوں نے سب سے پہلے اپنے داخلی نظام کو بہتر بنایا۔ اس کا مطلب مقامی صنعت کی ترقی اور مؤثر انفرااسٹرکچر کی فراہمی ہے، جو عالمی سطح پر مسابقتی نرخوں پر دستیاب ہو۔

یہ ایک ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے کہ دوست ممالک کے ساتھ کیے گئے متعدد مفاہمتی یادداشت تاحال حتمی معاہدوں میں تبدیل نہیں ہوسکے۔

وزارتِ خزانہ کی رپورٹ اپڈیٹ اینڈ آؤٹ لک کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں 1329 ملین ڈالر کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جو کہ 2023 میں 1.3 کھرب ڈالر کی عالمی ایف ڈی آئی کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

تاہم، یہ نکتہ قابل غور ہے کہ عالمی سطح پر براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (آیف دی آئی) میں کمی واقع ہو رہی ہے، کیونکہ گلوبلائزیشن جو کہ یک قطبی دنیا اور ایک سپر پاور کے تصور سے جڑی تھی، اب کثیر القطبی نظام اور امریکی قیادت میں عائد کردہ پابندیوں کے باعث زوال پذیر ہوچکی ہے۔ مزید برآں، ٹرمپ کی حالیہ پالیسی، جس کے تحت تجارتی محصولات میں برابری کا اصول اپنایا گیا ہے، نے اس رجحان کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر بدلتے عالمی نظام کو سمجھنے اور اس کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ نہ دینے کے باعث ایف ڈی آئی کے کم بہاؤ کا رجحان برقرار رہ سکتا ہے۔

حکومت کو نہ صرف بدلتے ہوئے عالمی نظام میں اپنی مؤثر پوزیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ملکی سرمایہ کاری کی صلاحیت کو بروئے کار لانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف