خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (ایس او ایز) نے جون 2024 کو ختم ہونے والے 12 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 851 ارب روپے کا نقصان رپورٹ کیا جو سالانہ بنیادوں پر 14.03 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی مجموعی سالانہ رپورٹ (جولائی 2023 تا جون 2024) کے مطابق، وفاقی سرکاری اداروں نے 372 ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے، جبکہ نان ٹیکس ریونیو—جس میں سیلز ٹیکس، رائلٹی اور لیویز شامل ہیں—1,400 ارب روپے تک پہنچ گیا۔

ڈیوڈنڈ 82 ارب روپے اور سود کی ادائیگی 206 ارب روپے رہی۔ مجموعی شراکت 2,062 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

رپورٹ کے مطابق، وفاقی سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی مجموعی آمدن 13,524 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو سالانہ بنیادوں پر 5.2 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔کل مجموعی منافع 820 ارب روپے رہا، جو سالانہ 14.61 فیصد اضافہ ہے، جبکہ خسارے میں چلنے والے ایس او ایز نے 851 ارب روپے کے مجموعی نقصان کی رپورٹ دی، جو سالانہ 14.03 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ان نقصانات میں حکومت کی جانب سے دی گئی 782 ارب روپے کی سبسڈی اور 367 ارب روپے کے گرانٹس شامل ہیں، جو آمدن میں شامل کیے گئے۔ مزید برآں پی ایس ڈبلیو ایف اداروں کو نکالنے کے بعد منافع بخش اداروں سے خسارے کی جزوی تلافی کے بعد خالص مجموعی نقصان 521.5 ارب روپے بنتا ہے۔

رپورٹ میں خسارے میں چلنے والے سب سے بڑے ایس او ایز اور مجموعی مالی نقصانات کو ظاہر کیا گیا۔

مالی سال 2024 کے دوران متعدد ایس او ایز کو نمایاں نقصان اٹھانا پڑا۔ این ایچ اے کو سب سے زیادہ نقصان 295.5 ارب روپے، کیسکو کو 120.4 ارب روپے، پیسکو کو 88.7 ارب روپے، پی آئی اے کو 73.5 ارب روپے، پاکستان ریلوے کو 51.3 ارب روپے، سیپکو کو 37 ارب روپے، لیسکو کو 34.5 ارب روپے، پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن کو 31.1 ارب روپے، حیسکو کو 22.1 ارب روپے، جینکو ٹو کو 17.6 ارب روپے، آئیسکو کو 15.8 ارب روپے، پاکستان پوسٹ آفس کو 13.4 ارب روپے، ٹیسکو کو 9.5 ارب روپے ، جیپکو کو 8.5 ارب روپے ، جینکو III کو 7.8 ارب روپے اور دیگر تمام ادارے مجموعی طور پر 23.7 ارب روپے نقصان میں رہے۔

مالی سال 2024 کے دوران متعدد سرکاری اداروں نے بھاری نقصانات اٹھائے۔ سب سے زیادہ نقصان نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے ) نے 295.5 ارب روپے رپورٹ کیا، اس کے بعد کیسکو کو 120.4 ارب روپے، پیسکو کو 88.7 ارب روپے، پی آئی اے کو 73.5 ارب روپے، پاکستان ریلوے کو 51.3 ارب روپے، سیپکو کو 37 ارب روپے، لیسکو کو 34.5 ارب روپے، پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن کو 31.1 ارب روپے، حیسکو کو 22.1 ارب روپے، جینکو ٹو کو 17.6 ارب روپے، آئیسکو کو 15.8 ارب روپے، پاکستان پوسٹ آفس کو 13.4 ارب روپے، ٹیسکو کو 9.5 ارب روپے ، جیپکو کو 8.5 ارب روپے ، جینکو III کو 7.8 ارب روپے اور دیگر تمام اداروں کو مجموعی طور پر 23.7 ارب روپےکا نقصان اٹھانا پڑا۔

اب تک مجموعی خسارہ 5,748 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جن میں سے زیادہ تر گزشتہ 10 سال کے دوران ہوئے ہیں۔

منافع کمانے والے سرکاری اداروں (ایس او ایز) میں سرفہرست 15 ادارے درج ذیل رہے: جن میں او جی ڈی سی ایل 208.9 ارب روپے، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ 115.4 ارب روپے،نیشنل پاور پارکس 76.8 ارب روپے، گورنمنٹ ہولڈنگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ 69.1 ارب روپے، پاک عرب ریفائنری کمپنی (پارکو) 55 ارب روپے، پورٹ قاسم اتھارٹی 41 ارب،ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو): 31.8 ارب روپے،نیشنل بینک 27.4 ارب روپے،واپڈا 22.2 ارب روپےکراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی): 20.3 ارب روپے، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) 20.1 ارب روپے، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) 19.6 ارب روپے، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن 18.3 ارب روپے اور پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی 15.2 ارب روپے شامل ہے۔ تاہم ان حسابی منافعوں کے باوجود فری کیش فلو کم اور سرمایہ کی اوسط لاگت زیادہ رہی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اثاثوں کی بک ویلیو سال بہ سال 6.37 فیصد اضافے سے 38 ہزار 434 ارب روپے جبکہ واجبات 6.7 فیصد اضافے سے 32 ہزار 571 ارب روپے تک پہنچ گئے جس کے نتیجے میں خالص ایکویٹی 5 ہزار 863 ارب روپے رہی جو سال بہ سال 4.47 فیصد اضافہ ہے۔ کم فری کیش فلو اور سرمایہ کی اوسط لاگت (ڈبلیو اے سی سی) جو 17 فیصد سے 22 فیصد تک رہی، کی وجہ سے ایکویٹی پر منافع (آر او ای) منفی 0.5 فیصد اور ریٹرن آن انویسٹمنٹ کیپیٹل (آر او آئی سی) 3.4 فیصد رہا۔

حکومتِ پاکستان نے آئی ایف آر ایس کے مطابق مالیاتی رپورٹنگ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے 1,586 ارب روپے کی مالی معاونت فراہم کی۔ یہ رقم مختلف مدات میں تقسیم کی گئی، جن میں 367 ارب روپے گرانٹس، 782 ارب روپے سبسڈیز، 336 ارب روپے قرضے، اور 99 ارب روپے ایکویٹی شامل ہیں۔ اس مالی معاونت کا مقصد نقصان میں چلنے والے اداروں کو سہارا دینا اور ان کے مالی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔

یہ رقم وفاقی بجٹ کی کل آمدنی کا 13 فیصد تھی۔

تاہم سی ایم یو نے مشاہدہ کیا کہ نقد بنیادوں پر دی گئی رقوم اور واجب الادا بنیادوں پر درج کی گئی رقوم میں فرق پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی بیلنس شیٹ میں عدم درستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مفاہمت کی ضرورت ہے تاکہ بیلنس شیٹ میں حکومت سے واجب الادا رقم کو یا تو کلیئر کیا جائے یا پھر ان کے وصولیوں سے نکالا جائے۔حکومتِ پاکستان کے سرکاری اداروں کو دیے گئے قرضوں میں 1,767 ارب روپے کی کیش ڈویلپمنٹ لونز (سی ڈی ایلز) اور 1,747 ارب روپے کے فارن ریلنٹ لونز (ایف آر ایلز) شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایس او ایز نجی شعبے کے بینکوں اور بانڈز/سکوک سے 2,813 ارب روپے کے قرضے رکھتے ہیں، جبکہ دیگر سود پر مبنی واجبات، جیسے لیز وغیرہ، 553 ارب روپے پر مشتمل ہیں۔ان قرضوں پر رول اوور لاگت اور واجب الادا سود 2,333 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجے میں کل بقایا قرضہ، بشمول واجب الادا سود، 9,195 ارب روپے ہو گیا ہے۔

ایس او ای کے مالیاتی پورٹ فولیو میں نمایاں مالی خطرات پائے جاتے ہیں، جہاں مالی لیوریج 6.62x اور آپریٹنگ لیوریج 10.6x ہے، جو زیادہ مقررہ اخراجات کی وجہ سے ہے۔اس کے نتیجے میں، مجموعی لیوریج تقریباً 70.12x تک پہنچ جاتی ہے، جس سے یہ پورٹ فولیو معاشی اتار چڑھاؤ کے لیے انتہائی حساس بن جاتا ہے۔

حکومتِ پاکستان کے ایس او ای کے پورٹ فولیو کے لیے ویلیو ایٹ رسک (وی اے آر) کا تخمینہ 4,951 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

مزید برآں ایس او ای کے قرضوں کا کریڈٹ اسپریڈ 226 بیسس پوائنٹس ہے، جو رسک فری ریٹ سے زیادہ ہے اور اس سے زیادہ قرض لینے کی لاگت کی عکاسی ہوتی ہے، جو اسٹرکچرل ماڈلنگ پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ میٹرکس اجتماعی طور پر خطرات سے نمٹنے اور ایس او ای پورٹ فولیو کی مالی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے اسٹریٹجک مداخلت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام اشاریے مل کر سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے پورٹ فولیو میں مالی خطرات کے مؤثر انتظام اور اس کی پائیدار مالیاتی بقا کو یقینی بنانے کے لیے اسٹریٹجک مداخلتوں کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف