عالمی بینک کے سرمایہ کاری ونگ، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے سربراہ مختار دیوپ نے اپنے دو روزہ دورہ پاکستان سے قبل پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی اور میکرو اقتصادی استحکام کے لیے کوشش کرے، نجی شعبے کی ترقی کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کیلئے اصلاحات کو تیز کرے، سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے تناسب کو دگنا کرے اور طویل المدتی خوشحالی کو یقینی بنائے۔

یہ درحقیقت وہی مشورے ہیں جو قرض دینے والے ادارے عمومی طور پر مقروض ممالک، بشمول پاکستان، کو دیتے رہے ہیں۔ 2019 کے بعد سے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی قیادت میں کثیرالجہتی ادارے مسلسل ہماری پے در پے حکومتوں کی ان اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کو دستاویز کرکے اپنی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کررہے ہیں، جن پر پچھلے اکیس پروگراموں کے تحت اتفاق کیا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں قرض دینے والے اداروں نے ان اہم وقتی اور ساختی اہداف پر چھوٹ دینے سے انکار کر دیا، جن پر اتفاق کیا گیا تھا۔

آج پاکستان اپنے 24ویں آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، اور سخت شرائط میں نرمی کرانے کی ہماری صلاحیت—خصوصاً وہ شرائط جو سیاسی طور پر مشکل ہیں کیونکہ ان کا اثر براہِ راست عوام پر پڑتا ہے—عملاً ختم ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ وہ دوست ممالک، جو ماضی میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے شدید ہونے پر پاکستان کی مالی مدد کرتے رہے ہیں، اب کسی بھی امداد کی فراہمی کے لیے سخت نگرانی والے آئی ایم ایف پروگرام کی شرط عائد کر رہے ہیں۔

دبئی میں رواں ہفتے منعقدہ ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں شرکت کے دوران وزیرِاعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات پر ان کا مؤقف تھا کہ اب آئی ایم ایف کا دباؤ کوئی تشویش کی بات نہیں۔ اس دباؤ سے مراد غالباً وہ شرائط ہیں جو یوٹیلیٹی کمپنیوں کی مکمل لاگت کی وصولی (جس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے ٹیرف عوام پر منفی اثر ڈال رہے ہیں) اور ٹیکس محصولات میں اضافے (جس میں بالواسطہ ٹیکسوں پر مسلسل انحصار کیا جا رہا ہے، جو امیروں کی نسبت غریبوں پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں) سے متعلق ہیں۔

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے ایکس پر لکھا: ”مجھے پاکستان میں آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ اصلاحات کے لیے ان کے مضبوط عزم کو دیکھ کر حوصلہ ملا ہے اور میں ان کے فیصلہ کن اقدامات کی حمایت کرتی ہوں، جو زیادہ ترقی اور نوجوانوں کے لیے مزید روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی راہ ہموار کریں گے۔“

یہ ایک روایتی سفارتی بیان ہے جو کسی کثیرالطرفہ ادارے کے سربراہ کی جانب سے اس وقت دیا جاتا ہے جب اس کا قرضہ پروگرام کسی مقروض ملک میں جاری ہو۔ یہ اس لیے بھی معمول کی بات ہے کیونکہ کسی مخصوص ملک کے لیے قرض کی شرائط طے کرنا سربراہ کا کام نہیں ہوتا، بلکہ یہ ذمہ داری ان ماہرین پر ہوتی ہے جو وہاں کے موجودہ معاشی حالات سے واقف ہوتے ہیں۔

اس سے وزیرِاعظم شہباز شریف کی اس کامیابی کی اہمیت کم نہیں ہوتی، جس میں انہوں نے جون 2023 میں پیرس میں ہونے والی ملاقات کے دوران آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو قرض کی منظوری کے لیے قائل کیا، جس کے نتیجے میں نو ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی منظوری ملی۔ تاہم، یہ منظوری اس شرط سے مشروط تھی کہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دو معاشی طور پر غلط فیصلوں کو واپس لیا جائے، جو جاری ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کی خلاف ورزی تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں پاکستان کے اہم اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔

یہ بیان معاشی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کے لیے قابلِ اعتراض ہو سکتا ہے، جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں بہتری درحقیقت درآمدات میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے (جس کا اثر بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی کی صورت میں نظر آتا ہے) نہ کہ برآمدات میں کسی مستقل اضافے کی وجہ سے۔ برآمدات میں جو اضافہ ہوا بھی، وہ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر عارضی پابندی (جو اب ہٹا دی گئی ہے) اور بنگلہ دیش میں بدامنی کے باعث برآمدی آرڈرز میں تاخیر کا فائدہ پاکستانی کمپنیوں کو پہنچنے کے سبب تھا۔

مہنگائی میں کمی آئی ہے تاہم اعدادوشمار میں ممکنہ ہیرا پھیری کے حوالے سے تاحال شکوک موجود ہیں۔ اس کے باوجود، اس کے مثبت اثرات عوامی سطح پر محسوس نہیں کیے جا رہے، کیونکہ غربت کی شرح 44 فیصد کی بلند سطح پر ہے، بیروزگاری 10 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ نجی شعبے کی آمدن میں گزشتہ چار سال کے دوران کم از کم 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

سرکاری شعبے میں ہر سال ٹیکس دہندگان کے خرچ پر تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے تاہم یہ ملازمین ملک کی مجموعی افرادی قوت کا صرف 7 فیصد ہیں۔

حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی مذاکراتی پوزیشن مضبوط بنانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اگر وہ سخت ابتدائی شرائط میں نرمی چاہتی ہے، اور وہ ہے بجٹ خسارے میں کمی۔ تاہم، اس کا حل ٹیکس بڑھانا نہیں، جیسا کہ موجودہ پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک سکڑتی ہوئی معاشی حکمتِ عملی ہے جو معاشی ترقی پر منفی اثر ڈالنے کے ساتھ عوام پر بھی اضافی بوجھ ڈالتی ہے۔ اس کے بجائے، حکومت کو اپنے جاری اخراجات میں کمی کر کے مالیاتی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔

کم بجٹ خسارہ نہ صرف ہمارے مذاکراتی موقف کو مضبوط کرے گا بلکہ مہنگائی میں کمی کا باعث بھی بنے گا۔ اس سے ٹیکس بڑھانے کا دباؤ کم ہوگا اور حکومت کو سیاسی طور پر مشکل اصلاحات نافذ کرنے کے لیے زیادہ گنجائش ملے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف