اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ڈپٹی گورنر سلیم اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ سبسڈیز صرف کمزور طبقے تک محدود ہونی چاہئیں۔

ایکسپو سینٹر میں پاکستان ایگریکلچر کولیشن کی دو روزہ ایگری کانفرنس اور ایکسپو سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کی مارکیٹ پر مبنی منتقلی معیشت کے استحکام اور ترقی میں مؤثر کردار ادا کرے گی۔

سپورٹ پرائس میکانزم پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں مارکیٹ کو قدرتی طور پر ترقی کرنے دینا چاہیے۔ وہ شعبے جو حکومتی مداخلت کے بغیر کام کرتے ہیں، عام طور پر مارکیٹ کی صورتحال سے زیادہ مؤثر طریقے سے مطابقت اختیار کر لیتے ہیں۔

عالمی بینک کے لیڈ ایگریکلچر اسپیشلسٹ، اولیور ڈیورانڈ نے زرعی پالیسی فریم ورک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری معاونت بڑے کاشتکاروں کے حق میں جاتی ہے، لیکن ہمیں چھوٹے کاشتکاروں کو ہدف بنانا چاہیے تاکہ پیداوار میں بڑے فرق کو کم کیا جاسکے۔

قبل ازیں، پاکستان ایگریکلچر کولیشن (پی اے سی) کے چیف ایگزیکٹو کاظم سعید نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ تاریخی جغرافیائی و سیاسی تبدیلیاں عالمی اقتصادی تعلقات اور زرعی اجناس کی ترسیل کو نئے سرے سے ترتیب دے رہی ہیں، اور یہ پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بھی ایک اہم موقع ہے۔

کاظم سعید نے کہا کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ہمارے زرعی شعبے میں قائم کردہ پالیسیوں اور معاشی ڈھانچے نے 1990 کی دہائی تک اپنے اہداف حاصل کئے، لہٰذا اگر پاکستان کا زرعی شعبہ معیشت کو سنبھالنا چاہتا ہے تو ہمیں اس منتقلی کو تیز کرنا ہوگا جہاں نجی شعبہ تبدیلی کی قیادت کرے اور سرمایہ کاری کرے۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قاسم نوید قمر نے کہا کہ حکومت سندھ کے محکمہ زراعت کے پاس کاشتکاروں کو سبسڈی والے ٹریکٹرز سے مدد فراہم کرنے، ڈرپ آبپاشی کے نظام، دیگر زرعی مشینری، براہ راست سبسڈی وغیرہ کے نفاذ کیلئے متعدد پروگرام ہیں۔

“ہمیں کاشتکاری کی تکنیک، درست زراعت اور پائیدار آبپاشی کے طریقوں میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو پیداواری صلاحیت اور منافع کو بڑھاسکتے ہیں۔ ہمیں ایگری ٹیک، کلائمیٹ اسمارٹ فارمنگ اور ویلیو چین ڈیولپمنٹ میں جدت طرازی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔

ایف جی ایم انٹرنیشنل کے سینئر ایگرو اکانومسٹ میٹیو لاگاٹی نے بڑے پیمانے پر ترقی کے لئے زراعت میں سرمایہ کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ اب بھی پاکستان میں ایک نوزائیدہ شعبہ ہے کیونکہ کارپوریٹ فارمنگ کی ترقی کے لئے کل قابل کاشت زمین کا صرف 4 فیصد (840،000 ہیکٹر) مختص کیا گیا ہے۔

میٹیو نے کہا کہ 17 کمپنیاں ہیں جو فی الحال 26،000 ہیکٹر کی مجموعی سطح کے لئے کارپوریٹ اور کنٹریکٹ فارمنگ میں سرمایہ کاری کررہی ہیں اور ایف جی ایم کے ذریعہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ سرمایہ کاری کی سطح آنے والے سال میں 80 ہزار ہیکٹر تک بڑھ جائے گی۔

میٹیو نے مزید کہا کہ ایک تفصیلی سیکٹر پالیسی کا فقدان ہے اور پانی کی تقسیم کے بارے میں تنازعات بھی پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔

فاطمہ گروپ سے تعلق رکھنے والی ماریہ سلیم نے انکشاف کیا کہ وہ 50 ہزار ایکڑ رقبے پر کارپوریٹ فارمنگ پروجیکٹ کے بڑے کنسورشیم کا حصہ ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی بہت زیادہ مانگ پیدا کررہی ہے، لہذا اس کا حل کارپوریٹ فارمنگ ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف