دنیا نے شہزادہ کریم الحسینی، آغا خان چہارم کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، اور بجا طور پر کیا، کیونکہ یہ ایک ایسے عہد کا اختتام ہے جو روحانی قیادت اور بے مثال فلاحی کوششوں سے عبارت تھا۔
بطور نزاری اسماعیلی جماعت کے 49ویں موروثی امام، انہوں نے تقریباً 1.2 کروڑ پیروکاروں کی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ رہنمائی کی۔ اپنی روحانی ذمہ داریوں سے ہٹ کر، آغا خان چہارم کی میراث عالمی ترقی اور انسانی ہمدردی پر مبنی خدمات میں گہری جڑی ہوئی ہے، خصوصاً آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کے قیام کے ذریعے۔
ان کی بصیرت افروز قیادت کے تحت قائم ہونے والا اے کے ڈی این آج 30 سے زائد ممالک میں امید اور ترقی کی علامت بن چکا ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت 1000 سے زائد پروگرام اور ادارے کام کر رہے ہیں، جو ہر سال تقریباً ایک ارب ڈالر غیر منافع بخش ترقیاتی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ اس کے منصوبے مختلف شعبوں جیسے صحت، تعلیم، ثقافت اور اقتصادی ترقی تک پھیلے ہوئے ہیں، جن کا مقصد پسماندہ برادریوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
**پاکستان میں اے کے ڈی این کے اثرات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی، جو ملک کے بہترین میڈیکل کالج کے طور پر جانی جاتی ہے، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں ان کی غیر معمولی وابستگی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
یہ نیٹ ورک دور دراز اور دیہی علاقوں تک پہنچا، جہاں اس نے 15,000 سے زائد بچوں کو ابتدائی تعلیم فراہم کی، ایسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی مدد کی جن سے 4 لاکھ سے زائد گھرانے مستفید ہوئے، اور 11 لاکھ سے زائد افراد کو صحت اور غذائیت کی سہولیات فراہم کیں۔ ان علاقوں میں جہاں ریاستی وسائل اکثر ناکافی ہوتے ہیں، اے کے ڈی این نے ترقیاتی خلا کو پُر کرنے اور کمیونٹیوں کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عالمی رہنماؤں نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کی بے مثال خدمات کو سراہا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں ”ایک بصیرت رکھنے والا، ایمان دار، اور فیاض انسان“ قرار دیا، جنہوں نے غربت کے خاتمے، صحت کی دیکھ بھال، اور صنفی مساوات کے لیے انتھک محنت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انہیں ”ہمارے پرآشوب دور میں امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت“ قرار دیا۔ یہ خراجِ تحسین اس عالمی احترام اور محبت کی عکاسی کرتا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں حاصل کیا۔
آغا خان چہارم کا ترقیاتی نقطہ نظر جامع تھا، جو یہ تسلیم کرتا تھا کہ حقیقی ترقی مادی اور روحانی فلاح دونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ترقی اور فلاحی اقدامات کو فروغ دینا امن کے قیام اور انتہا پسندی کے سدباب کا مؤثر ذریعہ ہے۔
انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ پیچیدہ سماجی و سیاسی ماحول میں کام کرتے ہوئے سیاسی معاملات سے بالاتر رہنا ضروری ہے۔ یہی غیر جانبداری اے کے ڈی این کو مقامی رہنماؤں اور برادریوں کا اعتماد جیتنے میں مدد دیتی رہی، جو کہ مغرب میں قائم کئی امدادی تنظیموں کے لیے ایک مشکل امر ثابت ہوا ہے۔
ان کی میراث صرف ان اداروں میں نہیں جو انہوں نے قائم کیے، بلکہ ان لاکھوں زندگیوں میں ہے جو انہوں نے بدلی ہیں۔اے کے ڈی این کی دور دراز، کمزور، اور جنگ زدہ علاقوں میں ترقیاتی خدمات نے پائیدار ترقی کا ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر عزم اور بصیرت ہو تو حقیقی تبدیلی ممکن ہے۔ آج جب دنیا بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ایسی تنظیموں کی اہمیت مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔
ان کے فرزند، شہزادہ رحیم الحسینی کی بطور 50ویں امام تقرری اسماعیلی جماعت کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ آغا خان چہارم کی پائیدار میراث بلاشبہ مستقبل کی کوششوں کے لیے ایک محرک اور رہنما بنی رہے گی۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ مخلص قیادت اور انسانیت کے لیے ہمدردانہ خدمات کتنی گہری اور دیرپا تبدیلی لا سکتی ہیں۔
ہم ان کے انتقال پر سوگوار بھی ہیں، اور ساتھ ہی ان کی ایک ایسی زندگی کا جشن بھی منا رہے ہیں جو دوسروں کی بہتری کے لیے وقف تھی۔ آغا خان چہارم کی خدمات نے دنیا پر ایک گہرا اور لازوال اثر چھوڑا ہے، اور ان کا وژن آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار بنا رہے گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments