سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تیل کی ادائیگی موخر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کا تخمینہ 1.6 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، معاہدے کی تقریب میں وزیر اعظم، نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ سمیت پاکستانی کابینہ کے سینئر ارکان نے شرکت کی جب کہ سعودی عرب کی جانب سے گواہ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے۔
سعودی عرب اس سے قبل بھی کئی بار پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل فراہم کرچکا ہے جو معیشت کی مسلسل نازک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زرمبادلہ ذخائر کا تین ماہ کی درآمدات سے کم سطح پر آجانا ہے، جو درحقیقت معاشی عروج و زوال کے چکروں کا نتیجہ ہے، جنہیں درآمدات میں کٹوتی کے ذریعے سنبھالا جاتا رہا جس کے منفی اثرات درآمدی خام مال پر انحصار کرنے والی ملکی صنعت پر پڑے۔
آج ملک اسی طرح کی پالیسی پر گامزن ہے، جہاں درآمدات کو انتظامی اقدامات کے ذریعے محدود کیا گیا (اگرچہ بعد میں کئی پابندیاں ہٹادی گئیں) ۔اس دوران آئی ایم ایف نے حکام پر زور دیا کہ وہ “جنوری 2022 میں برآمدی آمدنی کی واپسی کی مدت میں کی گئی کمی کو ختم کریں (جسے آئی ایم ایف کے ادارہ جاتی نقطہ نظر کے مطابق کیپٹل فلو مینجمنٹ سے متعلق اخراج تصور کیا جاتا ہے)، لیکن یہ اقدام تب اٹھایا جائے جب میکرو اکنامک اور ادائیگیوں کے توازن میں استحکام بحال ہو جائے۔
یہ عوامی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جون 2022 میں پاکستان پٹرولیم ڈویژن کے اس وقت کے جوائنٹ سیکریٹری برائے انٹرنیشنل اینڈ جوائنٹ ونچرز سید زکریا علی شاہ نے کہا تھا: “ہم اپنی موجودہ سہولت کو سعودی عرب کے ساتھ 1.2 سے بڑھا کر 3.6 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کے پاس تیل اور ایل این جی کی درآمد کے لیے انٹرنیشنل اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن(آئی ٹی ایف سی) کے ساتھ فریم ورک معاہدے کے تحت یہ سہولت 2017-18 سے موجود ہے، اس سہولت کیلئے آخری فریم ورک معاہدہ 21 فروری 2022 کو اقتصادی امور ڈویژن اور آئی ٹی ایف سی کے درمیان دستخط کیا گیا تھا۔ یہ تین سال (2022 سے 2024) کے لیے 4.5 بلین ڈالر کی سہولت ہے، جو سالانہ تقریباً 1.5 بلین ڈالر کی بنیاد پر بہترین ممکنہ کوششوں کے مطابق فراہم کی جاتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں، نہ تو مذکورہ رقم میں اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کی جانب سے گواہ کی حیثیت تبدیل ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ سہولت حکومت کو اپنے مالیاتی توازن کو بہتر بنانے میں مدد دے گی؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی کل درآمدات 7,353.539 ملین ڈالر رہیں (ایک ایسا وقت جب مؤخر ادائیگی کا فریم ورک معاہدہ نافذ تھا)، جو گزشتہ سال کے 7,283.696 ملین ڈالر کے مقابلے میں معمولی طور پر کم یعنی ایک فیصد سے بھی کم کمی ظاہر کرتی ہے۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق 23 جنوری 2025 سے 30 جنوری 2025 کے ہفتے کے دوران پٹرول (سپر) اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں کمی ہوئی اور 23 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں یہ 3.21 فیصد منفی درج کی گئی۔
یہ رجحان کم آمدنی والے طبقے (آمدنی 17,732 روپے تک) کے لیے حساس قیمت اشاریہ کے ڈیٹا کے لحاظ سے مثبت ثابت ہوا، جو پچھلے ہفتے کے منفی 1.04 فیصد کے مقابلے میں منفی 0.52 فیصد کی کمی پر رہا۔
تاہم، مجموعی طور پر یہ شرح 30 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں منفی 0.36 فیصد رہی، جو اس سے پچھلے ہفتے کے منفی 0.77 فیصد کے مقابلے میں بہتر ہے۔
تاہم احتیاط کی ضرورت ہے جیسا کہ 11 اکتوبر 2024 کو آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے گئے دستاویزات میں نشاندہی کی گئی: جی ڈی پی کے تقریباً ایک تہائی حصے پر مشتمل شعبوں کیلئے دستیاب بنیادی اعدادوشمار میں اہم خامیاں موجود ہیں جب کہ سرکاری مالیاتی شماریات کی تفصیل اور اعتبار سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں۔
معاشی ماہرین مستقل طور پر موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو تنبیہ کرتے آئے ہیں کہ وہ مہنگائی کے اعدادوشمار میں ردوبدل سے گریز کریں، جو کہ مصنوعی اقتصادی بہتری کا تاثر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی ہیرا پھیری آسانی سے شناخت کی جاسکتی ہے، جب متعلقہ شعبوں میں غیر متوازن رجحانات نظر آئیں (جیسے سیمنٹ کی پیداوار میں اضافہ لیکن تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی) اسی طرح، بعض اشیاء کے وزن کا تعین بھی مشکوک ہو سکتا ہے، مثلاً کرایہ، جس کی درست جانچ مشکل ہوتی ہے۔
روایتی طور پر حکومتی کامیابیوں کو گرانٹس اور قرضوں—چاہے وہ رعایتی ہوں یا نہ ہوں—سے جوڑا جاتا رہا ہے، مگر شاید اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرے، بجائے اس کے کہ پہلے سے زیادہ ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے پر توجہ مرکوز رکھے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments