وزیراعظم شہبازشریف نے یوم یکجہتی کشمیر پر ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون رہے گا۔

یہ دن ہر سال مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی اور عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی جانب مبذول کرانے کے لیے منایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر 5 فروری کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

دریں اثناء اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ حق خودارادیت بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کشمیری عوام 78 سال گزرنے کے باوجود اس ناقابل تنسیخ حق کو استعمال نہیں کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر دنیا کے سب سے بڑے قابض فوجی علاقوں میں سے ایک ہے۔ کشمیری خوف اور دہشت کے ماحول میں جی رہے ہیں۔

وزیرِاعظم نے کہا کہ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو طویل حراست میں رکھا جا رہا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ مزید یہ کہ کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ ان ظالمانہ اقدامات کا مقصد اختلافِ رائے کو کچلنا ہے۔

ادھر اپنے پیغام میں صدر آصف علی زرداری نے کشمیری عوام کی جائز اور قانونی جدوجہد کے لیے ان کے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے حصول میں پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔

یہ دن عالمی برادری کو مظلوم کشمیری عوام کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کی یاد دہانی کراتا ہے۔

صدر نے اپنے پیغام میں کہا کہ اقوام متحدہ کشمیریوں سے 77 سال قبل کیے گئے وعدوں کا احترام کرے اور کشمیری عوام کی خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول کے لیے ان کی منصفانہ جدوجہد کی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔

اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں“ اور یہ کہ انہیں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت دیا جانا چاہیے۔

Comments

200 حروف