دنیا

امریکن ایئر لائنز کا طیارہ اور آرمی ہیلی کاپٹر ٹکرا گئے ، دریا میں گر کر تباہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ

  • امریکن ایئر لائنز نے طیارے میں 64 افراد کے سوار ہونے کی تصدیق کر دی جن میں 60 مسافر اور عملے کے چار ارکان شامل ہیں۔
شائع January 30, 2025 اپ ڈیٹ January 30, 2025 03:09pm

امریکن ایئرلائنز کا طیارہ اور امریکی فوجی ہیلی کاپٹر تصادم کے بعد دریائے پوٹومیک میں گر کر تباہ ہوگئے، حادثے میں درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔

واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب بدھ کی رات امریکن ایئرلائنز کے علاقائی مسافر طیارے اور امریکی فوج کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے درمیان فضائی تصادم کے نتیجے میں دونوں طیارہ اور ہیلی کاپٹر برفیلے دریائے پوٹومیک میں گر کر تباہ ہوگئے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے، حکام نے واقعہ کی تصدیق کی ہے۔

حکام نے حادثے میں ہونے والی ہلاکتوں کی حتمی تعداد فراہم نہیں کی، تاہم امریکی سینیٹر راجر مارشل، جو کنساس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے پرواز روانہ ہوئی تھی، نے شبہ ظاہر کیا کہ تمام مسافر ہلاک ہوگئے ہیں۔

انہوں نے جمعرات کی صبح ریگن ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس میں کہا، جب ایک شخص کی موت ہوتی ہے تو یہ ایک سانحہ ہوتا ہے، لیکن جب درجنوں افراد ایک ساتھ جان گنوا بیٹھیں تو یہ ناقابلِ برداشت غم میں بدل جاتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تصور المیہ ہے۔

میٹروپولیٹن واشنگٹن ایئرپورٹ اتھارٹی کے صدر اور سی ای او، جیک پوٹر نے اسی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ابھی بھی ریسکیو موڈ میں ہیں۔

سی بی ایس نیوز نے ایک پولیس اہلکار کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ کم از کم 18 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

رائٹرز نے بھی دو ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی کہ پانی سے کئی لاشیں نکالی گئی ہیں۔

امریکن ایئرلائنز نے تصدیق کی کہ طیارے میں کل 64 افراد سوار تھے، جن میں 60 مسافر اور 4 عملے کے ارکان شامل تھے۔

ہیلی کاپٹر میں امریکی فوج کے 3 اہلکار سوار تھے، جو تربیتی مشن پر تھا۔

یہ فضائی حادثہ اس وقت ہوا جب وچیٹا، کنساس سے آنے والی پرواز ریگن ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے لیے قریب پہنچ رہی تھی۔

ایئر ٹریفک کنٹرول اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے درمیان ہونے والی ریڈیو گفتگو میں یہ سنا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا عملہ جانتا تھا کہ طیارہ قریب موجود ہے۔

پینٹاگون نے حادثے کی فوری تحقیقات کا اعلان کیا ہے، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں حادثے کا الزام ہیلی کاپٹر کے عملے اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز پر ڈال دیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’’ہیلی کاپٹر ایک طویل وقت تک سیدھا طیارے کی طرف بڑھتا رہا۔ رات بالکل صاف تھی، طیارے کی روشنیاں پوری طرح جل رہی تھیں، تو پھر ہیلی کاپٹر نے اوپر یا نیچے جانے یا مڑنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو کوئی ہدایت کیوں نہ دی؟ یہ ایک بہت برا واقعہ ہے جو روکا جا سکتا تھا۔ اچھا نہیں ہوا!!!“

ایئر ٹریفک کنٹرول کی ریکارڈنگ کے مطابق، تصادم سے چند سیکنڈ پہلے کنٹرولر نے ہیلی کاپٹر کو خبردار کیا:

پی اے ٹی 25، کیا آپ کے پاس سی آر جے طیارہ نظر آ رہا ہے؟ پی اے ٹی 25، سی آر جے کے پیچھے سے گزریں۔

چند لمحوں بعد، ایک اور طیارہ کنٹرول ٹاور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
ٹاور، کیا آپ نے یہ دیکھا؟ – جو کہ ممکنہ طور پر حادثے کی نشاندہی کر رہا تھا۔

تصادم کے بعد ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر نے بے بسی سے کہا:
میں نے ایک آگ کا گولا دیکھا اور پھر وہ غائب ہوگئے۔ میں نے اس کے بعد کچھ بھی نہیں دیکھا، وہ دریا میں جا گرے۔

ریسکیو آپریشن

حادثے کے بعد متاثرین کے عزیز و اقارب ایئرپورٹ پر جمع ہوگئے، لیکن انہیں حکام کی جانب سے بہت کم معلومات فراہم کی جا رہی تھیں۔

ایک خاتون نے ایئرپورٹ کے ایک افسر سے روتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ طیارے میں سوار ہوئی تھی یا نہیں اور پھر وہ وہیں رونے لگیں۔**

واشنگٹن ڈی سی کے فائر چیف، جان ڈونلی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 300 سے زائد ریسکیو اہلکار پیچیدہ امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کے حالات بہت مشکل ہیں۔ سخت سردی ہے، تیز ہوائیں چل رہی ہیں، اور پانی انتہائی ٹھنڈا ہے، جس سے ریسکیو مشن میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔

جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی زندہ بچا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس اندوہناک فضائی حادثے کی خبر سن کر شدید دکھ ہوا ہے۔

 ۔
۔

رات 1:30 بجے کے قریب، رائٹرز کے ایک رپورٹر نے مشاہدہ کیا کہ ایک ہیلی کاپٹر پانی پر روشنی ڈال کر تلاش میں مصروف تھا۔

دوسری جانب، درجنوں پولیس، ایمبولینس، اور ریسکیو ٹیمیں ایئرپورٹ کے ارد گرد متحرک دکھائی دیں۔

میٹروپولیٹن واشنگٹن ایئرپورٹ اتھارٹی کے سی ای او، جیک پوٹر کے مطابق ایئرپورٹ جمعرات کی صبح کم از کم 11 بجے تک بند رہے گا۔

Comments

200 حروف