پاکستان

شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی، 12 فیصد مقرر

  • ایم پی سی کو توقع ہے مالی سال 25 کے دوران سرکاری سطح پر مہنگائی کی شرح اوسطاً 5.5 فیصد سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گی
شائع January 27, 2025

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے توقعات کے مطابق کلیدی پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کردی ہے۔

جون 2024 کے بعد سے کلیدی شرح سود میں یہ لگاتار چھٹی کٹوتی ہے جب یہ 22 فیصد تھی۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم پی سی نے آج ( پیر کو) اپنے اجلاس میں پالیسی شرح میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 12 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 28 جنوری 2025 سے موثر ہوگا۔

 ۔
۔

کمیٹی نے نوٹ کیا کہ توقعات کے مطابق افراط زر میں کمی کا رجحان جاری ہے اور دسمبر میں یہ 4.1 فیصد سالانہ تک پہنچ گئی۔ یہ رجحان معتدل گھریلو طلب کے حالات اور سازگار بنیادی اثرات کے درمیان سپلائی سائیڈ کی معاون حرکیات کی وجہ سے ہے۔

جنوری میں افراط زر میں مزید کمی کی توقع ہے اور اس کے بعد کے مہینوں میں اس میں اضافہ ہوگا۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بنیادی افراط زر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ اب بھی بلند سطح پر ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہائی فریکوئنسی انڈیکیٹرز معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری دکھارہے ہیں۔ ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ جون 2024 کے بعد سے پالیسی ریٹ میں 1000 بی پی ایس کی نمایاں کمی کے اثرات سامنے آتے رہیں گے اور معاشی سرگرمیوں کو مزید مدد ملے گی۔

16 دسمبر کو ہونے والے اپنے پچھلے اجلاس میں ایم پی سی نے کلیدی پالیسی ریٹ کو 200 بی پی ایس کم کرکے 13 فیصد کردیا تھا۔

ایم پی سی نے اپنے آخری اجلاس کے بعد سے اہم پیش رفت کا بھی ذکر کیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مالی سال 202025 کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو ایم پی سی کی سابقہ توقعات سے قدرے کم رہی۔ دوسرا یہ کہ کرنٹ اکاؤنٹ دسمبر 2024 میں سرپلس میں رہا، حالانکہ کم مالی بہاؤ اور قرضوں کی زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی۔ تیسرا یہ کہ دسمبر میں خاطر خواہ اضافے کے باوجود ٹیکس محصولات پہلی ششماہی سے مالی سال 25تک ہدف سے کم رہے۔ چوتھا، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شدید اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ اور آخر میں، عالمی اقتصادی پالیسی کا ماحول زیادہ غیر یقینی ہو گیا ہے، جس نے مرکزی بینکوں کو محتاط نقطہ نظر اپنانے پر مجبور کیا ہے.

ان پیشرفتوں اور ابھرتے ہوئے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم پی سی نے دیکھا کہ قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لئے محتاط مانیٹری پالیسی موقف کی ضرورت ہے جو پائیدار اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ افراط زر کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف کی حد میں مستحکم کرنے کے لئے حقیقی پالیسی ریٹ کو مستقبل کی بنیاد پر کافی حد تک مثبت رکھنے کی ضرورت ہے۔

افراط زر کی توقعات

ایم پی سی نے کہا کہ افراط زر میں کمی کا رجحان بنیادی طور پر بجلی کے نرخوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔ اہم غذائی اشیاء کی مناسب فراہمی جس کی وجہ سے غذائی افراط زر کی سطح کم ہوتی ہے۔ شرح تبادلہ میں استحکام؛ اور سازگار بنیادی اثر.

انہوں نے کہا کہ بنیادی افراط زر کی نشاندہی کے مطابق بنیادی افراط زر کے دباؤ میں بھی کمی آئی ہے اور گھریلو طلب میں کمی آئی ہے، حالانکہ یہ اب بھی بلند ہیں۔ اس کے علاوہ افراط زر کی توقعات بھی غیر مستحکم رہیں۔ ان رجحانات کی بنیاد پر ایم پی سی نے اپنے سابقہ تخمینے کا اعادہ کیا کہ قریب المیعاد افراط زر غیر مستحکم رہے گا اور توقع ہے کہ مالی سال 25 کے اختتام تک ہدف کی حد کے اوپری حد کے قریب اضافہ ہوگا۔

ایم پی سی کو توقع ہے کہ مالی سال 25 کے لئے ہیڈ لائن افراط زر اوسطا 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں افراط زر کا نقطہ نظر عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، بڑی معیشتوں میں تحفظ پسند پالیسیوں، انتظامی توانائی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے وقت اور حجم، خراب ہونے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ محصولات کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی اضافی اقدامات سے پیدا ہونے والے خطرات سے مشروط ہے۔

مارکیٹ کی توقعات

ماہرین کی اکثریت کو توقع ہے کہ مرکزی بینک اپنے مالیاتی نرمی کے موقف کو جاری رکھے گا کیونکہ افراطِ زر کی شرح میں کمی نے چھٹی مسلسل کٹوتی کی توقعات کو بڑھا دیا ہے۔

بروکریج ہاؤس جے ایس گلوبل نے پالیسی ریٹ میں کم از کم 100 بی پی ایس کی کٹوتی کی پیش گوئی کی ہے۔

جے ایس گلوبل نے اپنے سروے میں کہا کہ 79 فیصد شرکاء نے توقع ظاہر کی کہ مرکزی بینک کم از کم شرح سود میں 100 بی پی ایس کی کٹوتی کا اعلان کرے گا۔

کٹوتی کی توقع رکھنے والے شرکاء میں سے 5 فیصد نے شرح سود میں 50 بی پی ایس کی کمی کی پیش گوئی کی جبکہ 8 فیصد نے 150 یا اس سے زائد اور 7 فیصد نے 200 بی پی ایس کٹوتی کا امکان ظاہر کیا ہے ۔

۔ بروکریج ہاؤس نے کہا کہ صرف ایک فیصد شرکاء نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی کی توقع نہیں کی۔

ایک اور بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے بھی 100 بی پی ایس کمی کا امکان ظاہر کیا ہے ۔

اے ایچ ایل نے اپنے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 68.4 فیصد شرکاء کو شرح سود میں 100 بی پی ایس کی کمی کی توقع ہے، 15.8 فیصد نے شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی پیش گوئی کی ہے اور 10.5 فیصد نے 150 بی پی ایس کی کٹوتی کی توقع ظاہر کی ہے۔ صرف 5.3 فیصد شرکاء کو پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

اسی طرح سی ایف اے سوسائٹی کے سروے کے مطابق 75 فیصد کو 100 بی پی ایس کی کمی کی توقع ہے۔ مزید برآں، 13 فیصد نے 150 بی پی ایس کی کٹوتی کی پیش گوئی کی جبکہ 9 فیصد نے 200 بی پی ایس کی کمی کا امکان ظاہر کیا ہے ۔

گزشتہ ایم پی سی کا اجلاس

اپنے آخری اجلاس میں ایم پی سی نے مارکیٹ کی توقعات کے مطابق شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔

اس وقت ایم پی سی نے مشاہدہ کیا تھا کہ ترقی کے امکانات میں کچھ بہتری آئی ہے جیسا کہ معاشی سرگرمی کے ہائی فریکوئنسی انڈیکیٹرز میں حالیہ اضافے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ پالیسی ریٹ میں کٹوتی کا اس کا نقطہ نظر افراط زر اور بیرونی کھاتوں کے دباؤ کو قابو میں رکھنا ہے جب کہ پائیدار بنیادوں پر معاشی ترقی کی حمایت کررہا ہے۔

ایم پی سی کے گزشتہ اجلاس کے بعد سے کئی اہم اقتصادی پیش رفت ہوئی ہے۔

روپے کی قدر میں 0.2 فیصد کمی ہوئی جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں 1.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گزشتہ ایم پی سی کے بعد سے اضافہ ہوا ہے جو غیر یقینی صورتحال کے درمیان 79 ڈالر فی بیرل سے اوپر ہے۔

دسمبر 2024 میں پاکستان میں افراط زر کی شرح سالانہ 4.1 فیصد رہی جو نومبر 2024 کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 4.9 فیصد تھی۔

اس کے علاوہ دسمبر 2024 ء میں ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں 582 ملین ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 279 ملین ڈالر کے سرپلس کے مقابلے میں 109 فیصد کا نمایاں اضافہ ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا یہ لگاتار پانچواں مہینہ تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ ذخائر ہفتہ وار بنیادوں پر 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کم ہو کر 17 جنوری تک 11 ارب 45 کروڑ ڈالر رہ گئے۔

ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 16.19 ارب ڈالر ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس خالص زرمبادلہ ذخائر 4.74 ارب ڈالر ہیں۔

Comments

200 حروف