جنوبی کوریا کے استغاثہ نے اتوار کو معزول صدر یون سک یول پر دسمبر 3 کو مختصر عرصے کے لیے مارشل لا کے نفاذ کے ذریعے بغاوت کی قیادت کرنے کے الزام پر فرد جرم عائد کی ہے۔ یہ بات معزول صدر یون کے وکلاء اور مرکزی اپوزیشن جماعت نے بتائی ہے۔
یون کے وکلاء نے فرد جرم عائد کرنے کو استغاثہ کی جانب سے ’بدترین انتخاب‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
جنوبی کوریا کے صدر کے لیے یہ الزامات بے مثال ہیں اور اگر ان پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو یون کو مارشل لا کے حکم نامے پر کئی سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، جس میں سیاسی اور پارلیمانی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ان کے اس اقدام سے ایشیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت اور امریکہ کے ایک بڑے اتحادی ملک میں سیاسی ہلچل کی لہر دوڑ گئی اور وزیر اعظم کا مواخذہ بھی کیا گیا اور انہیں اقتدار سے معطل کر دیا گیا اور متعدد اعلیٰ فوجی عہدیداروں پر مبینہ بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی۔
یون کے وکلا نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کی جانب سے ایمرجنسی مارشل لا کا اعلان حزب اختلاف کے قابو سے باہر ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے قومی بحران پر عوام سے ایک مایوس کن درخواست تھی۔
استغاثہ کے دفتر نے فوری طور پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ فرد جرم کی خبر جنوبی کوریا کے میڈیا نے بھی رپورٹ کی۔ گزشتہ ہفتے اینٹی کرپشن تفتیش کاروں نے جیل میں قید یون پر الزامات عائد کرنے کی سفارش کی، جنہیں پارلیمنٹ نے 14 دسمبر کو معزول کردیا تھا۔
خود ایک سابقہ اعلیٰ پراسیکیوٹر، یون 15 جنوری کو پہلی بار صدر کے طور پر گرفتار ہونے کے بعد سے قید تنہائی میں ہیں، جب ان کی سکیورٹی ٹیم اور گرفتار کرنے والے حکام کے درمیان کئی دنوں تک مزاحمتی اور مسلح تصادم ہوا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے آخر میں ایک عدالت نے استغاثہ کی اس درخواست کو دو بار مسترد کر دیا تھا کہ وہ مزید تفتیش کرتے ہوئے ان کی نظر بندی میں توسیع کریں، لیکن الزامات کے ساتھ انہوں نے ایک بار پھر درخواست کی ہے کہ انہیں حراست میں رکھا جائے۔
بغاوت ان چند مجرمانہ الزامات میں سے ایک ہے جس سے جنوبی کوریا کے صدر کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اس کی سزا عمر قید یا موت ہے، حالانکہ جنوبی کوریا نے دہائیوں میں کسی کو پھانسی نہیں دی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان ہان من سو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ استغاثہ نے یون سک یول پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن پر بغاوت کا سرغنہ ہونے کا الزام ہے۔ بغاوت کے سرغنہ کی سزا اب آخر کار شروع ہوتی ہے۔ یون اور ان کے وکلاء نے گزشتہ ہفتے آئینی عدالت میں اپنے مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران دلیل دی تھی کہ وہ کبھی بھی مکمل طور پر مارشل لاء نافذ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ان اقدامات کا مقصد صرف سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے ایک انتباہ تھا۔
فوجداری عمل کے متوازی، سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا یون کو عہدے سے ہٹایا جائے یا ان کے صدارتی اختیارات کو بحال کیا جائے۔ اس پر فیصلہ کرنے کے لئے اس کے پاس 180 دن ہیں۔
جنوبی کوریا کی حزب اختلاف کی زیر قیادت پارلیمان نے 14 دسمبر کو یون کا مواخذہ کیا تھا، جس کے بعد وہ ملک میں مواخذے کا سامنا کرنے والے دوسرے قدامت پسند صدر بن گئے تھے۔
پارلیمنٹ میں فوجیوں کا مقابلہ کرنے والے قانون سازوں کی جانب سے اس حکم نامے کو مسترد کیے جانے کے تقریبا چھ گھنٹے کے اندر ہی یون نے اپنا مارشل لاء کا اعلان منسوخ کر دیا تھا۔
ڈرامائی تصادم کے دوران رائفلوں، باڈی آرمر اور نائٹ ویژن آلات کے ساتھ فوجیوں کو ٹوٹی کھڑکیوں کے ذریعے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوتے دیکھا گیا۔
اگر یون کو عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو 60 دن کے اندر اندر صدارتی انتخابات ہوں گے۔
Comments