** اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے سالانہ ری بیسنگ تعیناتی کے شیڈول میں نظرثانی کی منظوری دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ری بیسنگ ہر سال یکم جنوری 2025 سے نافذ کیا جائے، بشرطیکہ ریگولیٹری کارروائیاں مکمل ہوں۔**

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

ای سی سی نے پاور ڈویژن کی جانب سے سالانہ ری بیسنگ تعیناتی شیڈول میں نظرثانی کے حوالے سے پیش کردہ تجویز پر غور کیا اور منظور کرلیا۔ پالیسی ہدایات جاری کرنے کی منظوری دی گئی تاکہ نیپرا کو سالانہ ٹیرف تعیناتی کے عمل کے شیڈول میں ترمیم کیلئے قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک میں ضروری تبدیلیاں کی جاسکیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جولائی کے بجائے ہر سال یکم جنوری سے بجلی کے نرخوں کی ری بیسنگ کے فیصلے کا مقصد موسم گرما کے مہینوں میں عوامی ردعمل سے بچنا ہے جب فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ (ایف سی ایز) اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی ایز) کے اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

نیپرا نے مزید کہا کہ چونکہ ٹیرف کے ری بیسنگ کے لیے منظوری کا عمل مکمل ہونے میں نو ماہ لگتے ہیں اور اس عمل کا آغاز پہلے ہی جولائی 2025 کے لیے ہو چکا ہے، اس لیے یکم جنوری 2025 سے ری بیسنگ کا نفاذ ممکن نہیں۔ ان کے مطابق، اس عمل کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے مناسب وقت درکار ہے تاکہ تمام قانونی اور ریگولیٹری مراحل کو بخوبی پورا کیا جا سکے۔

تاہم کابینہ کی ای سی سی نے پاور ڈویژن کی تجویز پر غور کیا۔ پاور ڈویژن کے مطابق صارفین کو گرمیوں میں فیول چارجز ایڈجسٹمنٹس اور سالانہ ٹیرف ری بیسنگ دونوں کا ایک ساتھ سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔۔ ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ساتھ زیادہ کھپت گرمیوں میں صارفین کے بجلی کے بلوں میں نمایاں اضافے کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں عدم برداشت، عوامی عدم اطمینان اور ملک گیر احتجاج ہوتا ہے۔

ای سی سی نے ہدایت کی کہ ریگولیٹری کارروائی مکمل ہونے کے بعد یکم جنوری 2025 سے ہر سال یکم جنوری 2025 سے ری بیسنگ کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ پاور ڈویژن کو ان پالیسی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کے لیے نیپرا سے رابطہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نیشنل فوڈ سیفٹی، اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی (این ایف ایس اے پی ایچ آر اے) کے قیام کے لیے 91 کروڑ روپے کی ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ (ٹی ایس جی) کے طور پر اضافی فنڈز مختص کرنے کی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی تجویز پر غور کیا اور اس کی منظوری دی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو مالی سال 2024-25ء کی تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے وزارت صنعت و پیداوار کی تجویز پر بھی غور کیا۔ کمیٹی نے فنانس ڈویژن کو مالی سال 25-2024 کے لئے 935.78 ملین روپے کی متوقع خالص تنخواہ کی ادائیگی کی منظوری دینے کا اختیار دیا جو پی ایس ایم کی تنخواہوں کے مطالبے کے مطابق ماہانہ تقسیم کی جائے گی۔ یہ فنڈز پہلے ہی منظور شدہ ساڑھے تین ارب روپے کے بجٹ میں سے فراہم کیے جائیں گے۔

وزارت تجارت نے تیار شدہ فلیٹ اسٹیل مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں توسیع کے لئے ایک تجویز پیش کی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ٹیرف پالیسی بورڈ کی سفارشات کے مطابق 26 دسمبر 2024 کو ہونے والے اپنے 61 ویں اجلاس میں متعلقہ آئرن اور اسٹیل فلیٹ مصنوعات پر ڈیوٹیز میں 31 مارچ 2025 تک توسیع کی منظوری دی۔ تاہم ای سی سی نے اس بات پر زور دیا کہ کسٹمز ایکٹ 1968 کے سیکشن 18 کی ذیلی شق 3 کے تحت وفاقی حکومت کے اختیارات میں مزید توسیع پر غور نہیں کیا جائے گا۔

ای سی سی نے وزارت خارجہ کی جانب سے رواں مالی سال 2024-25ء کے دوران 90.275 ملین روپے کی تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹ (ٹی ایس جی) کی درخواست کی منظوری دی۔ یہ فنڈز پی اے ایف اور پی آئی اے کی ادائیگیوں کے لیے استعمال کیے جائیں گے اور آپریشنل کارکردگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے رواں مالی سال 2024-25ء کے دوران فرنٹیئر کور (ایف سی) نارتھ کی آپریشنل ضروریات کے لیے فنڈز کی فراہمی کے لیے وزارت داخلہ کی تجویز کی بھی منظوری دی۔ فرنٹیئر کور کی آپریشنل ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 941.400 ملین روپے کے ٹی ایس جی کی منظوری دی گئی۔

وزارت میری ٹائم افیئرز کی جانب سے گوادر پورٹ کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سہولت کے لیے بینک گارنٹی واپس لینے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اے پی ٹی ٹی اے کے تحت ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کی درآمد کے لیے 7 اکتوبر 2023 کو عائد کی گئی بینک گارنٹیز کو انشورنس گارنٹی کے ساتھ تبدیل کرنے کی منظوری دی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت اوورسیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کی جانب سے مالی سال 2024-25 کے لیے بجٹ تجاویز اور مالی سال 2023-24 کے لیے ملازمین کے اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) کے حوالے سے نظر ثانی شدہ تخمینوں کی تجویز پر غور کیا۔

ای سی سی نے ای او بی آئی اور ایم او پی ایچ آر ڈی کی جانب سے تجاویز پیش کرنے میں تاخیر پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

ای سی سی نے ای او بی آئی آڈٹ میں تاخیر پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا، آخری آڈٹ 2019 میں کیا گیا تھا۔ متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تاخیر کی مکمل تحقیقات کریں اور ایک ہفتے کے اندر ای سی سی کو اپ ڈیٹ پیش کریں۔

وزیر خزانہ اورنگزیب نے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے تمام فیصلوں پر موثر اور شفاف عملدرآمد کی اہمیت پر زور دیا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف