عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ بڑھتے ہوئے مالی خطرات کو کم کرنے اور قرضوں کے انتظام میں پائی جانے والی تقسیم کو دور کرنے کے لئے ایک مستقل ڈیبٹ اینڈ رسک مینجمنٹ کمیٹی قائم کرے۔ دو مشاہدات اہم ہیں۔
سب سے پہلے بڑھتے ہوئے مالی خطرات کا تعلق بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے سے ہے جو گزشتہ 6 سے 7 سال سے 7 فیصد سالانہ سے زیادہ کی شرح سے ناقابل برداشت ہے، اس کے لیے ٹیکس اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت ہے، جن میں بالواسطہ ٹیکسز کے بجائے براہِ راست ٹیکسز کی طرف منتقل ہونا شامل ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ براہِ راست ٹیکسز کا اہم ترین ذریعہ وہ وڈ ہولڈنگ ٹیکس ہیں جو سیلز ٹیکس کے بالواسطہ طریقے پر عائد کیے جاتے ہیں، جو ایک ایسا بالواسطہ ٹیکس ہے (جس کا بوجھ غریبوں پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، اور اس کا تخمینہ موجودہ براہِ راست ٹیکس جمع کرنے کا 75 سے 80 فیصد ہے) جو اب عوام کے لیے ناقابلِ برداشت بن چکا ہے، کیونکہ ملک میں 41 فیصد غربت کی شرح موجود ہے۔
موجودہ حکومت نے جاری پروگرام کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اصلاحات کا عہد کیا ہے؛ تاہم، اگرچہ حکومت نے نان فائلرز کو نوٹس جاری کیے ہیں جیسا کہ پچھلی حکومتوں نے کیا تھا، لیکن ابھی تک بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ براہِ راست ٹیکسز پر منتقل نہیں ہوسکا ہے۔ پچھلے مالی سال تاجروں پر ٹیکس عائد کرنے کا جو پالیسی فیصلہ کیا گیا تھا، اس میں تاجروں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی حد تک ترمیم کردی گئی ہے جو ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پر عمل درآمد ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔
دوسرا، قرض کے انتظام میں تقسیم سے مراد آئی ایم ایف کا پچھلے 3 سے 4 پروگرامز میں یہ مستقل اصرار ہے کہ ملک ایک واحد ٹریژری اکاؤنٹ اپنائے تاکہ قرض کے انتظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جاسکے۔2010 میں آئی ایم ایف کے ایک ورکنگ پیپر جس کا عنوان ٹریژری سنگل اکاؤنٹ: تصور، ڈیزائن اور عمل درآمد ہے، جو اسرائیل فینبوئم اور سیلیندر پٹنائک نے جاری کیا تھا، نے دلیل دی کہ “ٹی ایس اے کا بنیادی مقصد سرکاری نقد بیلنس پر مؤثر مجموعی کنٹرول کو یقینی بنانا ہے۔
نقد وسائل کو ٹی ایس اے انتظام کے تحت یکجا کرنے کا مقصد حکومت کے نقدی انتظام کو مؤثر اور بہتر بنانا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایک طرف کچھ ادارے اخراجات کے لیے قرض لے کر اضافی سود ادا نہ کریں، جب کہ دوسری طرف دیگر ادارے اپنے بینک اکاؤنٹس میں غیر فعال بیلنس رکھتے ہیں۔مالی اور بجٹ کے انتظام میں نقد رقم کا مؤثر مجموعی کنٹرول بھی ایک اہم عنصر ہے۔
ٹی ایس اے کے دیگر مقاصد میں شامل ہیں: لین دین کے اخراجات کو کم کر کے بجٹ کے مؤثر اور قابل اعتماد نفاذ کو یقینی بنانا، جمع کرنے والے بینکوں کے ذریعے حکومت کی آمدنی (ٹیکس اور غیر ٹیکس دونوں) کی ترسیل کی نگرانی کرنا اور (اور اس طرح تاخیر کو کنٹرول کرنا)، بینکنگ اور اکاؤنٹنگ ڈیٹا کے درمیان مؤثر مفاہمت کرنا، مختلف حکومتی اداروں کو مختص فنڈز کا مؤثر کنٹرول اور نگرانی کرنا، اور مالیاتی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کی سہولت فراہم کرنا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں کہا کہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے صرف 15 سے 20 فیصد کام باقی ہے لیکن شاید ٹی ایس اے کی ایک خصوصیت کچھ تشویش کا باعث ہوسکتی ہے، خاص طور پر ورکنگ پیپر کے مطابق، یہ ایک یکجا انتظام ہے جو حکومت کے نقدی وسائل کی فنکشنل ایبلٹی کو بڑھاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی دیگر حکومتی ادارہ خزانے کی نگرانی کے بغیر بینک اکاؤنٹس چلانے کی اجازت نہیں رکھنا چاہیے۔
بہرحال مذاقاً بینک عملے کی تجویز کو قرض اور خطرے کے انتظام کی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے وہ مشہور کہاوت یاد دلاسکتے ہیں کہ اونٹ وہ گھوڑا ہے جو کمیٹی نے ڈیزائن کیا ہو۔ یعنی ایک اور لاحاصل مشق، دراصل اس کیلئے سیاسی حمایت کی ضرورت ہے، جیسا کہ ورکنگ پیپر میں ذکر کیا گیا ہے کہ “ ٹی ایس اے کے قیام کے لیے سخت فیصلے درکار ہوسکتے ہیں، جیسے کہ بجٹ تنظیموں کے موجودہ بینک اکاؤنٹس (جو خزانے کے کنٹرول سے باہر ہیں) کو بند کرنا، جو طاقتور مخالفانہ ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے، ٹی ایس اے اصلاحات کو حکومت کی اعلیٰ سطح سے واضح اور مضبوط حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ کابینہ کے فیصلے جو اصلاحات کے آغاز اور تقویت کیلئے ہوں، بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔“
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments