غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن سے دستیابی، برآمدی صلاحیت بہتر ہوئی ہے، پی پی ایم اے چیف
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین توقیر الحق کے مطابق غیر ضروری ادویات کی ریگولیشن میں نرمی نے دوا ساز کمپنیوں کو پیداوار دوبارہ شروع کرنے، رسائی کو بہتر بنانے، اسمگل شدہ اور جعلی ادویات کی فروخت کو روکنے کی سہولت فراہم کی ہے۔
توقیر الحق نے بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب قانونی ادویات دستیاب نہیں ہوتیں تو ان جگہ اسمگل شدہ اور جعلی ادویات بطور متبادل استعمال ہوتی ہیں جو اکثر مہنگی، معیار یا افادیت کے حوالے سے مشکوک ہوتی ہیں اور بعض اوقات خطرناک بھی ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کینسر، تپ دق اور امراض قلب کی بیماریوں کے لئے ضروری ادویات کی شدید قلت پر روشنی ڈالی جس کی وجہ سے پالیسی میں تبدیلی سے پہلے صحت کا ایک اہم بحران پیدا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیر ضروری ادویات کو ڈی ریگولیٹ کرکے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اب لوگ آسانی سے ضروری ادویات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے توقیر الحق نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ قیمتوں میں ہر سطح پر بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے آئی کیو وی آئی اے، ایک بین الاقوامی فارماسیوٹیکل مارکیٹ مانیٹرنگ ایجنسی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا، جس کے مطابق قیمتوں میں 20% سے 21% تک اضافہ ہوا۔
توقیر الحق نے وضاحت کہ کہ اس میں 4 فیصد اضافہ فطری ہے جو پہلے دستیاب نہ ہونے والی ادویات کی دستیابی کی وجہ سے ہوئی اور نئی مالیکیولز کے تعارف سے تقریباً 2.5 فیصد سے 3 فیصد تک اضافہ ہوا، اگر ان عوامل کو نکال دیا جائے تو اوسط قیمت میں اضافہ تقریباً 15 فیصد ہے، جو حکومت کی جانب سے پرائس ایڈجسٹمنٹ کے لیے دیے گئے 10 فیصد کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے زیادہ نہیں ہے۔
پی پی ایم اے کے سربراہ نے دیرینہ مشکلات کے معاملات کی طرف بھی اشارہ کیا جہاں کمپنیوں نے قیمتوں کے ناقابل عمل ڈھانچے کی وجہ سے پیداوار بند کردی۔ انہوں نے کہا کہ مشکلات کے 162 مقدمات سالوں سے زیر التوا تھے، کمپنیوں نے کچھ ادویات کی تیاری ترک کر دی کیونکہ پیداواری لاگت فروخت کی قیمت سے زیادہ تھی۔
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی گولی کی پیداواری لاگت 2 روپے سے زیادہ ہو لیکن اس کی قیمت 2 روپے یا اس سے کم ہو تو کمپنیوں نے اس کی تیاری بند کر دی، تاہم حکومت نے قیمت میں 6 روپے تک اضافے کی اجازت دی جس سے مینوفیکچررز پیداوار دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہوگئے، اس سے قبل یہ ادویات بلیک مارکیٹ میں 25 روپے میں فروخت کی جاتی تھیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا رپورٹس میں قیمتوں میں اضافے کی الگ الگ مثالیں مارکیٹ کی مجموعی صورتحال غلط طور پر پیش کی جاتی ہیں، یہ مثالیں صرف کچھ مشکل معاملات میں ہوتی ہیں جہاں ڈرگ پرائسنگ کمیٹی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دینے کی خوبیوں اور خامیوں پر تبادلہ خیال کرتی ہے۔ اگر ان مشکل کیسز میں قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی جاتی ہے تو انہیں ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔
توقیر الحق نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی سمیت معاشی دباؤ نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کے لیے 90 فیصد سے زائد خام مال درآمد کیا جاتا ہے۔ بجلی، پیٹرول اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا طے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کے موسمیاتی قوانین نے سپلائی چین کو مزید متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے آپریشنل لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ریگولیشن سے ادویات کی برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں 31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مارکیٹ کے کرتا دھرتا ڈی ریگولیشن کے بعد قیمتوں کو مستحکم کریں گے کیونکہ مسابقت میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری ادویات کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا یہ فیصلہ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر میں نافذ ہے۔ حکومت ابھی بھی 492 ضروری ادویات کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرتی ہے اور سی پی آئی (کنزیومر پرائسانڈیکس) کے حساب سے ان پر سالانہ 70 فیصد قیمتوں میں اضافے کی اجازت دیتی ہے
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ قیمتوں میں اضافہ قلیل مدتی طور پر مسئلہ بن سکتا ہے جس کی وجہ طویل عرصے سے جاری سخت حالات اور تاخیر سے کی جانے والی ریگولیشن میں نرمی کو قرار دیا۔
کراچی میں ایک فارمیسی کے مالک راشد قریشی نے ماضی کی قلت کے مقابلے میں مارکیٹ کے موجودہ استحکام پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور جو صارفین 30 ٹیبلٹ باکس خریدتے تھے وہ اب بجٹ کی کمی کی وجہ سے صرف ایک پتہ خریدتے ہیں۔ تاہم اب ماضی کے مقابلے میں مریضوں کو پریشانی نہیں کیوں کہ انہیں قلت کے سبب بلیک میں ادویات خریدنا پڑی رہی تھیں۔
انہوں نے بڑے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تعریف کی جنہوں نے اپنے سپلائی چین کے انتظام میں نظم و ضبط دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی کمپنیاں صرف فارمیسی کے آرڈرز کو حقیقی طلب کے مطابق پورا کرتے ہیں تاکہ ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے۔
فارمیسی سیلز پرسن عمیر حنیف نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں نے اپنی خریداری کی مقدار کم کر دی ہے لیکن بازار زیادہ مستحکم محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ٹیگرل، جس کی قیمت 50 روپے تھی، اب 100 روپے ہے – لیکن قلت کے دوران یہ 100 روپے میں فروخت ہورہی تھی جس کے باوجود اس کا ملنا انتہائی مشکل تھا۔
چیلنجز کے باوجود انڈسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ ڈی ریگولیشن اور سپلائی چین کے بہتر طریقوں نے پاکستان میں زیادہ مستحکم فارماسوٹیکل مارکیٹ کی بنیاد رکھی ہے۔
Comments